{مسائل تہجد}
تہجد کی رکعتیں۔
مسئلہ:تہجدکے معنی ہیں نیند کو توڑ کر اٹھنا۔ تہجد کی کم سے کم دور کعتیں ہیں ( ترغیب و الترہیب) اوسطاً چار اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (یا بارہ) رکعتیں ہیں۔
یہ نماز اللہ کے یہاں بہت مقبول ہے نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اس کا ثواب ہے۔ (مسلم باب فضل صلاۃ اللیل، ترمذی، ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺکا عام معمول مبارک۔
مسئلہ:رسول اللہ ﷺکا عام معمول مبارک آٹھ رکعت تہجد پڑھنے کاتھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے ایسا ہی منقول ہے،البتہ آپ کی نماز بہت طویل ہوتی تھی، قراء ت بھی طویل، رکوع اور سجدہ بھی طویل(الجامع الترمذی، باب في وصف صلاۃ النبی ﷺباللیل)
تہجد کا ثواب حاصل کرنے کے لئے پہلے سے سونا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ:فقہ وحدیث کی بعض عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد تہجد کی نیت سے پڑھی جانے والی نوافل تہجد ہی میں شمار ہوتی ہیں، نیز تہجد کا ثواب حاصل کرنے کے لئے پہلے سے سونا ضروری نہیں ہے؛ لہٰذا نصف شب کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنے سے تہجد کی سنت کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ (فتاوی دارالعلوم ۴/۳۰۵، ایضاح المسائل ۴۹، احسن الفتاوی ۳/۴۹۳، محمودیہ ۷/۲۳۴ڈابھیل)
تہجد کا وقت۔
مسئلہ:کتاب الفتاوی میں ہے:- تہجد کا وقت وہی ہے جو عشا ء کا وقت ہے،عشاء کی نماز کے بعد سے فجر کا وقت شروع ہونے تک کبھی بھی نمازِ تہجد پڑھی جاسکتی ہے، ( البتہ بہتر یہ ہے کہ رات کی آخری حصہ میں پڑھی جائے ، ہیثمی کی روایت ہے: ’’عشاء کے بعد جو بھی نماز پڑھی جائے، وہ قیام لیل یعنی تہجد ہے‘‘ فقہاء نے معمولات نبوی ﷺکو سامنے رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک تہائی شب تہجد میں گزار ناچاہتا ہو تو رات کا درمیانی تہائی افضل ہے، ’’فالثلث الأوسط أفضل من طرفیہ‘‘اور نصف شب تہجد پڑھنا چاہتاہو تو آخری نصف کو تہجد میں گزارنا افضل ہے: ’’فقیام نصفہ الأخیر أفضل‘‘۔
تہجد کا وقت افضل وقت۔
مسئلہ:جو شخص جاگنے کا بھروسا رکھتا ہو اس کے لئے تہجد کے وقت وتر پڑھنا افضل ہے، اور جو بھروسا نہ رکھتا ہو اس کے لئے عشاء کے بعد پڑھ لینا بہتر ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۳/۵۹)
صبحِ صادق سے پہلے تک تہجد کا وقت ہے۔
مسئلہ:صبحِ صادق سے پہلے تک تہجد کا وقت ہے، اس لئے اگر صبحِ صادق نہ ہوئی ہو تو سحری کے وقت تہجد پڑھ سکتے ہیں(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۳/۵۹)
وتر پہلے پڑھ لئے تو تہجد کے وقت وتر دوبارہ نہ پڑھے۔
مسئلہ:اگر وتر پہلے پڑھ لئے تو تہجد کے وقت وتر دوبارہ نہ پڑھے جائیں، صرف تہجد کے نوافل پڑھے جائیں۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۳/۵۹)
دو رکعت صبح صادق کے بعد تہجد کی نیت سے پڑھنا۔
مسئلہ: اگر کسی نےصبح صادق کے بعدتہجد کی نیت سے دو رکعت پڑھی تووہ فجر کی سنت کے قائم مقام ہوجائیگی؛ اس لئے کہ سنت وغیرہ کی صحت کے لئے مطلق نیت کافی ہوتی ہے؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں دوبارہ سنتِ فجر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہی راجح قول ہے،لو صلی رکعتین علی ظن انہا تہجد بظن بناء اللیل فتبین انہا بعد طلوع الفجر کانت عن سنۃ الفجر علی الصحیح فلا یصلیہا بعدہ للکراہۃ۔ (الاشباہ والنظائر ۳۱۵ مکتبہ فقیہ الامت دیوبند)
نماز تہجدکی نیت ۔
مسئلہ:نماز تہجدکی نیت مطلق نفل کی نیت سے ہو جائے گی۔(فتاوی عثمانی 1 /309مکتبہ جبرئیل )
اس طرح نیت کرلے ،
مسئلہ:اگر چاہے تو اس طرح نیت کرلے ، ’’نیت کرتا ہوں میں دورکعت نفل تہجد کی اللہ تعالیٰ کے واسطے ،میرا رخ کعبہ شریف کی طرف ،اللہ اکبر ۔(علم الفقہ 188/2 )
تہجد کی ہر رکعت میں سورہ اخلاص کا ملانا ۔
مسئلہ: تہجد کی ہر رکعت میں سورہ اخلاص کا ملانا ضروری نہیں ہے ،اگر کوئی ملالے تو جائز ہے (فتاویٰ دارالعلوم ۴/۳۰۳)
نماز تہجد کی ایک خاص دعا۔
مسئلہ:حضرت ابن عباس سے مروی ہےکہآپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کیلئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے،
« اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِى مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلٰھى لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ»(ابوداؤد باب مایستفتح بہ الصلوٰۃ من الدعا)
تہجد کی قضا۔
مسئلہ: قضاء نہ تہجد کی واجب ہے نہ چاشت اشراق کی،:( فتاوی رشیدیہ مکتبہ جبرئیل225)
نماز تہجدکی نیت ۔
مسئلہ: حضراتِ حنفیہ کے نزدیک رمضان المبارک میں تہجد کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے، اور تداعی کی تفسیر یہ ہے کہ اس جماعت میں چار آدمی سے زیادہ شریک نہ ہوں۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۳/۴۶۸-۴۶۷،فتاویٰ رشیدیہ۳۵۴-۳۵۵، فتاویٰ رحیمیہ ۴/۳۲۳)
بلا تداعی ر مضان المبارک میں تہجد کی جماعت۔
مسئلہ: اگر بلا تداعی امام کے علاوہ دو یا تین آدمیوں کی جماعت ہو تو بلاتکلف درست ہے، اور اگر اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو یہ جماعت مکروہ ہے، اور یہ دو تین آدمی کی جماعت تہجد میں بھی ہوسکتی ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۳/۴۶۸-۴۷۶، )
حرمین شریفین رمضان المبارک میں تہجد کی جماعت۔
مسئلہ:حرمین شریفین میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تہجد کی جماعت (قیام اللیل) میں حنفی مقتدیوں کے لئے بھی شرکت کی گنجائش ہے؛ اس لئے کہ جو ائمہ امامت کرتے ہیں، ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں ہے۔
الحنابلۃ قالوا: أما النوافل فمنہا ما تسن فیہ الجماعۃ وذٰلک: کصلاۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین، ومنہا ما تباح فیہ الجماعۃ: کصلاۃ التہجد الخ۔(الفقہ علی المذاہب الأربعۃ،الصلاۃ/حکم الإمام في صلاۃ الجمعۃ والجنازۃ والنوافل230المکتبۃالعصریۃبیروت،کتاب النوازل جلد 4 /340 مکتبہ جبرئیل )