(کسب وتجارت)
آج آپکی خدمت میں تجارت و معیشت کے عنوان پر کچھ ذکر کرنا ہے ،دراصل آج کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ دین صرف نماز ،روزہ، حج ،زکوۃ وغیرہ ہی کو کہتے ہیں ،رہی بات اسباب معشیت کو اپنانا تو یہ توکل کے خلاف ہے اور یہ دین سے بالکل الگ چیز ہے ،اور دنیا حاصل کرنے والا شریعت کی نگاہ میں مجرم اور گناہگار ہے ،تو میں آج کی اس تقریر (تحریر ) میں انہیں گمراہ کن گفتگو کا جواب دیتے ہو ئے یہ بتا ؤنگا کہ اسباب معیشت کا اپنانا بھی شریعت مطہرہ ہی کا حکم ہے اور ایسے اشخاص کوشریعت نے بجائے عذاب کے ثواب کا مزدہ سنایا ہے،
ارشاد باری تعالیٰ میں طلب رزق کو فضل الہی بتا یا گیا ہے ،چناچہ ارشاد باری ہے :۔
فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون (الجمعۃ: ۱۰)پھر جب جمعہ کی نماز اداکرلی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح حاصل کرو۔
ایک دوسری جگہ رات ودن کو بنانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے ارشاد باری ہے ،’’وجعلنا اللیل لباساً ،وجعلنا النھار معاشاً‘‘ کہ ہم نے رات کو پردے کی چیز بنایا اور ہم نے دن کو ذریعہ معاش کے لئے بنایا،
اللہ رب عزت نے پہلی آیت میں معیشت کو اپنا فضل بتا کر اسکی طلب کا حکم دیا نیز دن کو اسلئے بنایا گیا تاکہ انسان آسانی کے ساتھ طلب معیشت کر سکے ،پس ان دونوں آیت کریمہ سے بخوبی معلوم ہوا کہ طلب معیشت جائز ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا فضل بھی ہے ،
احادیث مبارک میں طلب معیشت کی اہمیت
طلب الحلال واجب علی کل مسلم(کنز العمال حدیث نمبر9204) حلا ل معیشت اختیار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ(کنز العمال حدیث نمبر9203) فرائض (نماز روزہ وغیرہ)کے بعدحلال کمائی حاصل کرنا بھی ایک فریضہ ہے،
حلال معاش طلب کرنے والا اللہ کے راستے میں ہے
حضرت کعب بن عجرۃ کی حدیث میں ہے:۔جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا اور حلال کماتا ہے تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے۔(الترغیب:۲/۳۳۵ شاملۃرواہ الطبرانی)
حلال معاش اللہ کو پسند ہے
نبی رحمتﷺ کا ارشادہے: عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺقال انَّ اللّٰہ یحب المؤمن المحترف۔(الترغیب:2:335رواہ الطبرانی وکذا فی کنز العمال حدیث نمبر/۹۱۹۹ ) آپ ﷺ نے فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ صنعت وحرفت کا پیشہ اختیار کرنے والے مؤمن کو پسند فرماتے ہیں۔
ابن عباس اور ابن عمر کی روایت ہے کہ’’ طلب الحلال جھاد ‘‘(کنز العمال حدیث نمبر9205) یعنی حلال رزق تلاش کرنا جہاد کے برابر ہے ،
یوں تو طلب معیشت کے چار ذرائع ہیں ،تجارت ،ملازمت ،صنعت وحرفت ،اور زراعت ،اور ان تما م طریقوں سے معاش طلب کرنا جائز ہے ،اور یہ تمام طریقے انبیاء کرام صحابہ عظام کی زندگی سے ثابت ہوتی ہیں،کوئی نبی ملازمت کرتے تھے ،کوئی نبی زراعت کرتے تھے ،کوئی نبی بڑھی کاکام کرتے تھے،کوئی نبی درزی کاکام کرتے تھے ،کوئی نبی بکریاں چراتے تھے ، خودہمارے نبی رحمت ﷺ نے بھی مختلف وقتوں میں تجارت ،زراعت اور ملازمت کی ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے خودمکہ مکرمہ کے پہاڑ پر اجرت میں بکریاں چرائیں،آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ا چھی طرح یا د ہے کہ میں اجیاد کے پہار پر قوم کی بکریاں چرایاکرتاتھا،حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ وانا کنت ارعاھالاھل مکۃ بالقراریط ‘‘(کنز العمال حدیث نمبر9243) یعنی میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چرایا کرتاتھا،بہرحال آپ نے مزدوری کی ،اسی طرح آپ کا تجارت کرنا بھی احادیث کثیرہ سے ثابت ہے ،آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کامال لیکر دو مرتبہ ملک شام کا سفر کئے ہیں،اور آپ ﷺ نے زراعت بھی کی ہے چناچہ مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلہ پر مقام جرف تھا ،وہاں پر آپ نے زراعت بھی کی ہے ،الحاصل آپ نے معیشت کے تمام طریقوں کو اپنا یا ہے ،اس لئے آج اگر کوئی تجارت کرتا ہے تو وہ اس میں بھی نبی کی اقتدا کی نیت کرلے ،زراعت کرنے والے ،ملازمت کرنے والے اپنے اپنے کام میں نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کی نیت کرلے تواس صورت میں یہ تمام کا م دین بن جائیگا اور باعث نجات و ثواب بن جائیگا،
تجارت کی اہمیت وفضیلت
کسب معاش کی بہت سی صورتیں اور شکلیں اس وقت پائی جارہی ہیں ان میں سے جو بھی جائز صورت ہو، اسے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں،لیکن سب سے زیادہ بابرکت ذریعہ تجارت کا ہے۔
آپ ﷺ نے خود تجارت فرمائی، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔ حضرت علیؓ کو آپ ﷺ کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے اس کا موقع کم ملا تاہم وقتاً فوقتاً انہوں نے بھی تجارت فرمائی۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ بڑے پیمانے پر ریشم کی تجارت کرتے تھے،آپکی صدر دوکان کوفے میں تھی اوران کے ایجنٹ ملک بھرمیں پھیلے ہوئے تھے۔ راس المحدیثیں حضرت امام بخاریؒ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔
حضرت سالم بن عبد اللہ ؒ بازارمیں لین دین کیا کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ص ۷ ۷، ج۱)
حضرت عبد اللہ ابن مبارکؒ نے تجارت کا مشغلہ اختیارفرمایا۔(ایضاً ص ۱۵ ج۱)
حضرت حافظ عبد الرزاق حمریؒ نے بھی تجارت کی۔(ایضاً ص ۴۳۳ج۱)
حضرت فضل کوفیؒ حسن بن ربیع نے بورئیے کا کاروبارکیا۔(ایضاً ج۱ ص ۱۴۳)
حضرت احمدابن خالدقرطبی نے جبہ فروشی کی۔(ایضاً ص ۶۳ج۳)
حضرت ابن جوزیؒ نے تانبا کاکاروبارکیا۔(ایضاً ص ۷۳۱ ج۱)
حضرت ابن رومیہ نے دَوَافروشی کی۔(ایضاً ص ۷۱۲ ج۴)
حضرت محمدابن سلیمان نے گھوڑے کا کاروبارفرمایا۔(تذکرۃ الحفاظ ص ۸۰۱ ج۳)
حضرت ابوالفضل مہندس ومشقی نے نجاری کاپیشہ اختیارفرمایا۔(ایضاً ص ۰۴ ج۴)
حضرت امام یونس ابن عبیدؒ داؤد ابن ابی ہندؒ ،امام اعظم ابوحنیفہؒ ، حضرت وثیمہ، غندربصری،ابوالحسن نیشاپوری، ہشام دستوائی وغیرہ نے ریشمی اورسوتی کپڑوں کی تجارت کی ہے،(ایضاً ج ۱، ص ۱۳۱)
اسی طرح اکثر سلف صالحین کا ذریعہ معاش تجارت تھا ان کا یہ مشغلہ دو وجہ سے تھا ،پہلی وجہ کہ وہ اپنے آپ کو حکومت اور اہل ثروت کے احسان سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔دوسری وجہ کہ احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے مختلف طریقوں سے تاجروں کی ہمت افزائی اور انکے حق میں دنیوی و اخروی بشارتیں سنائی ہیں،
دیندار تاجر انبیا کے ساتھ ہوں گے :۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّاجِرُالصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَ الصِّدِّيقِينَ،وَالشُّهَدَاءِ.
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّاجِرُالصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَ الصِّدِّيقِينَ،وَالشُّهَدَاءِ.
حضرت ابو سعید خدریؓ نبی رحمت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا ‘‘(ترمذی باب ماجاء فی التجار) ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجارت کرنے والے قیامت کے دن فاجروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے مگر جس نے اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور نیکی کی اور سچ بولا،(ترمذی باب ماجاء فی التجار)
حضرت ابو سعید خدریؓ نبی رحمت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا ‘‘(ترمذی باب ماجاء فی التجار) ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجارت کرنے والے قیامت کے دن فاجروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے مگر جس نے اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور نیکی کی اور سچ بولا،(ترمذی باب ماجاء فی التجار)
بہترین کمائی تجارت ہے
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ»
رافع بن خدیج ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھ کا کام اور صحیح طریقہ پر تجارت (مسند احمد ، مشکوٰ ۃ)
پتنجلی کی چیزیں حرام ہیں
طلاق اور موجودہ حکومت
اہل وعیال کی فکر میں رہنے والا ثواب کے اعتبار سے مجاہد ہے
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جب ہم میں سے کوئی اپنے اہل وعیال کیلئے (حلال ) خرچ حاصل کر نے کی فکر میں مغموم ہوکر رات گزار دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جہاد میں تلوار کے ہزاروں وار کرنے سے زیادہ افضل ہے ( مسند امام اعظم )
آثار صحابہ
حضرت عبد اللہ اب مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بیکاری پسند نہیں ،میں اس شخص پر حیرت زدہ ہوں جونہ دنیا کے کاموں میں مصروف ہو اور نہ دین میں لگا ہو ،( احیاء العلوم ۲ :۱۰۹ )
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں اپنے مرنے کیلئے سب سے زیادہ اس جگہ کو پسند کرونگا جہاں میں اپنے اہل وعیال کیلئے خرید وفروخت کرتاہوں ۔( احیاء العلوم ۲ :۱۱۰ )
ابراہیم نخعی ؒ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپکو امانت دار تاجر پسند ہے یا وہ شخص جو عبادت کیلئے فارغ ہو گیا ہو،آپ نے فرمایا مجھے امانت دار تاجر پسند ہے ،اس لئے کہ وہ جہاد کررہا ہے شیطان اسے ناپنے تولنے میں ، لینے دینے میں، اور خریدنے بیچنے میں راہ حق سے ہٹانا چاہتا ہے؛ لیکن وہ اسکی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اسکا مقابلہ کرتاہے، ( احیاء العلوم ۲ :۱۰۹ )
حضرت شیخ پھول پوری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص بازار میں ریا کے طور پر تسبیح پڑھ رہا ہے ،اورایک شخص اپنی بیوی بچے کی پرورش کی نیت سے بازار میں جام بیچ رہا ہے ،اور آواز لگاتا ہے ،جام لیلو،جام لیلو ،تو اس جام بیچنے والے کے ایک ایک بول پر ثواب مل رہا ہے ،اور اس تسبیح پڑھ والے کو ایک ایک بول پر گناہ مل رہا ہے ،
حضرت عیسی ؑ نے ایک شخص سے دریافت فرمایا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا ،میں عبادت کرتا ہوں ،حضرت عیسی ؑ نے اس سے فرمایا پھر تمہاری کفالت (کھانا،کپرا)کون کرتاہے ؟ اس نے کہا میرا بھائی ،حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا پھر تو تمہارا بھائی ثواب میں تم سے بڑھ گیا،(احیاء)
ان تمام آیت واحادیث اور اقوال فقہاء وسلف صالحین سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ دینا کمانا بقدر ضرورت کوئی گناہ کا کام نہیں ہے بلکہ حسن نیت شامل ہو جائے تو وہ بھی دین بن جاتا ہے ،
اللہ اکبر ! اللہ تعالی کی کی کس قدر عنایت ہے کہ وہ ہماری اپنی انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے پر بھی ثواب دے رہا ہے،اس تناظر میں کتنابد نصیب ہے وہ شخص جواب بھی دنیوی کاموں میں اللہ کی رضامندی کی نیت نہ کرے ،بلکہ اپنے نفس کی خوشی کیلئے دولت کو اکٹھا کرتا رہے ، اس لئے میں تما م دوستوں سے یہی گزارش کرونگا کہ جب ہمکو کام کرنا ہی ہے ،تجارت ،ملازمت ،صنعت وحرفت کرنا ہی ہے، تو کیوں نہ ہم اس میں بھی نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کی نیت کرلیں تاکہ ہم کو مزدوری بھی مل جائیگی اور مفت میں ثواب بھی مل جائے گا بس حسن نیت سے تجارت بھی دین بن جاتا ہے ،اللہ تعالی ہم سبھی لوگوں کو صحیح سمجھ عطا کرے، آمین
اہم مضامین کیلئے نیچے کلک کریں
مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقامپتنجلی کی چیزیں حرام ہیں
طلاق اور موجودہ حکومت