Tuesday, December 27, 2016

معیشت وتجارت کی فضیلت


بسم اللہ الرحمن الرحیم

(کسب وتجارت)

     آج آپکی خدمت میں تجارت و معیشت کے عنوان پر کچھ ذکر کرنا ہے ،دراصل آج کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ دین صرف نماز ،روزہ، حج ،زکوۃ وغیرہ ہی کو کہتے ہیں ،رہی بات اسباب معشیت کو اپنانا تو یہ توکل کے خلاف ہے اور یہ دین سے بالکل الگ چیز ہے ،اور دنیا حاصل کرنے والا شریعت کی نگاہ میں مجرم اور گناہگار ہے ،تو میں آج کی اس تقریر (تحریر ) میں انہیں گمراہ کن گفتگو کا جواب دیتے ہو ئے یہ بتا ؤنگا کہ اسباب معیشت کا اپنانا بھی شریعت مطہرہ ہی کا حکم ہے اور ایسے اشخاص کوشریعت نے بجائے عذاب کے ثواب کا مزدہ سنایا ہے،


ارشاد باری تعالیٰ میں طلب رزق کو فضل الہی بتا یا گیا ہے ،چناچہ ارشاد باری ہے :۔

فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون (الجمعۃ: ۱۰)پھر جب جمعہ کی نماز اداکرلی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح حاصل کرو۔

ایک دوسری جگہ رات ودن کو بنانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے ارشاد باری ہے ،’’وجعلنا اللیل لباساً ،وجعلنا النھار معاشاً‘‘ کہ ہم نے رات کو پردے کی چیز بنایا اور ہم  نے دن کو ذریعہ معاش کے لئے بنایا،

اللہ رب عزت نے پہلی آیت میں معیشت کو اپنا فضل بتا کر اسکی طلب کا حکم دیا نیز دن کو اسلئے بنایا گیا تاکہ انسان آسانی کے ساتھ طلب معیشت کر سکے ،پس ان دونوں آیت کریمہ سے بخوبی معلوم ہوا کہ طلب معیشت جائز ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا فضل بھی ہے ،

احادیث مبارک میں طلب معیشت  کی اہمیت 


طلب الحلال واجب علی کل مسلم(کنز العمال حدیث نمبر9204) حلا ل معیشت اختیار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ(کنز العمال حدیث نمبر9203) فرائض (نماز روزہ وغیرہ)کے بعدحلال کمائی حاصل کرنا بھی ایک فریضہ ہے،

حلال معاش طلب کرنے والا اللہ کے راستے میں ہے


حضرت کعب بن عجرۃ کی حدیث میں ہے:۔جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا اور حلال کماتا ہے تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے۔(الترغیب:۲/۳۳۵ شاملۃرواہ الطبرانی)

حلال معاش اللہ کو پسند ہے

نبی رحمتﷺ کا ارشادہے: عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺقال انَّ اللّٰہ یحب المؤمن المحترف۔(الترغیب:2:335رواہ الطبرانی وکذا فی کنز العمال حدیث نمبر/۹۱۹۹ ) آپ ﷺ نے فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ صنعت وحرفت کا پیشہ اختیار کرنے والے مؤمن کو پسند فرماتے ہیں۔ 
ابن عباس اور ابن عمر کی روایت ہے کہ’’ طلب الحلال جھاد ‘(کنز العمال حدیث نمبر9205) یعنی حلال رزق تلاش کرنا جہاد کے برابر ہے ،
یوں تو طلب معیشت کے چار ذرائع ہیں ،تجارت ،ملازمت ،صنعت وحرفت ،اور زراعت ،اور ان تما م طریقوں سے معاش طلب کرنا جائز ہے ،اور یہ تمام طریقے انبیاء کرام صحابہ عظام کی زندگی سے ثابت ہوتی ہیں،کوئی نبی ملازمت کرتے تھے ،کوئی نبی زراعت کرتے تھے ،کوئی نبی بڑھی کاکام کرتے تھے،کوئی نبی درزی کاکام کرتے تھے ،کوئی نبی بکریاں چراتے تھے ، خودہمارے نبی رحمت ﷺ نے بھی مختلف وقتوں میں تجارت ،زراعت اور ملازمت کی ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے خودمکہ مکرمہ کے پہاڑ پر اجرت میں بکریاں چرائیں،آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ا چھی طرح یا د ہے کہ میں اجیاد کے پہار پر قوم کی بکریاں چرایاکرتاتھا،حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ وانا کنت ارعاھالاھل مکۃ بالقراریط ‘‘(کنز العمال حدیث نمبر9243) یعنی میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چرایا کرتاتھا،بہرحال آپ نے مزدوری کی ،اسی طرح آپ کا تجارت کرنا بھی احادیث کثیرہ سے ثابت ہے ،آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کامال لیکر دو مرتبہ ملک شام کا سفر کئے ہیں،اور آپ ﷺ نے زراعت بھی کی ہے چناچہ مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلہ پر مقام جرف تھا ،وہاں پر آپ نے زراعت بھی کی ہے ،الحاصل آپ نے معیشت کے تمام طریقوں کو اپنا یا ہے ،اس لئے آج اگر کوئی تجارت کرتا ہے تو وہ اس میں بھی نبی کی اقتدا کی نیت کرلے ،زراعت کرنے والے ،ملازمت کرنے والے اپنے اپنے کام میں نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کی نیت کرلے تواس صورت میں یہ تمام کا م دین بن جائیگا اور باعث نجات و ثواب بن جائیگا، 
تجارت کی  اہمیت وفضیلت

کسب معاش کی بہت سی صورتیں اور شکلیں اس وقت پائی جارہی ہیں ان میں سے جو بھی جائز صورت ہو، اسے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں،لیکن سب سے زیادہ بابرکت ذریعہ تجارت کا ہے۔ 

آپ ﷺ نے خود تجارت فرمائی، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔ حضرت علیؓ کو آپ ﷺ کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے اس کا موقع کم ملا تاہم وقتاً فوقتاً انہوں نے بھی تجارت فرمائی۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ بڑے پیمانے پر ریشم کی تجارت کرتے تھے،آپکی صدر دوکان کوفے میں تھی اوران کے ایجنٹ ملک بھرمیں پھیلے ہوئے تھے۔ راس المحدیثیں حضرت امام بخاریؒ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔

حضرت سالم بن عبد اللہ ؒ بازارمیں لین دین کیا کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ص ۷ ۷، ج۱)
حضرت عبد اللہ ابن مبارکؒ نے تجارت کا مشغلہ اختیارفرمایا۔(ایضاً ص ۱۵ ج۱)

حضرت حافظ عبد الرزاق حمریؒ نے بھی تجارت کی۔(ایضاً ص ۴۳۳ج۱)

حضرت فضل کوفیؒ حسن بن ربیع نے بورئیے کا کاروبارکیا۔(ایضاً ج۱ ص ۱۴۳)
حضرت احمدابن خالدقرطبی نے جبہ فروشی کی۔(ایضاً ص ۶۳ج۳)
حضرت ابن جوزیؒ نے تانبا کاکاروبارکیا۔(ایضاً ص ۷۳۱ ج۱)
حضرت ابن رومیہ نے دَوَافروشی کی۔(ایضاً ص ۷۱۲ ج۴)
حضرت محمدابن سلیمان نے گھوڑے کا کاروبارفرمایا۔(تذکرۃ الحفاظ ص ۸۰۱ ج۳)
حضرت ابوالفضل مہندس ومشقی نے نجاری کاپیشہ اختیارفرمایا۔(ایضاً ص ۰۴ ج۴)
حضرت امام یونس ابن عبیدؒ داؤد ابن ابی ہندؒ ،امام اعظم ابوحنیفہؒ ، حضرت وثیمہ، غندربصری،ابوالحسن نیشاپوری، ہشام دستوائی وغیرہ نے ریشمی اورسوتی کپڑوں کی تجارت کی ہے،(ایضاً ج ۱، ص ۱۳۱)
اسی طرح اکثر سلف صالحین کا ذریعہ معاش تجارت تھا ان کا یہ مشغلہ دو وجہ سے تھا ،پہلی وجہ کہ وہ اپنے آپ کو حکومت  اور اہل ثروت کے احسان سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔دوسری وجہ کہ احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے مختلف طریقوں سے تاجروں کی ہمت افزائی اور انکے حق میں دنیوی و اخروی بشارتیں سنائی ہیں،

دیندار تاجر انبیا کے ساتھ ہوں گے :۔


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّاجِرُالصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَ الصِّدِّيقِينَ،وَالشُّهَدَاءِ.


حضرت ابو سعید خدریؓ نبی رحمت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا ‘‘(ترمذی باب ماجاء فی التجار) ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجارت کرنے والے قیامت کے دن فاجروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے مگر جس نے اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور نیکی کی اور سچ بولا،(ترمذی باب ماجاء فی التجار) 

بہترین کمائی تجارت ہے 


عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ» 

 رافع بن خدیج ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھ کا کام اور صحیح طریقہ پر تجارت (مسند احمد ، مشکوٰ ۃ)




اہل وعیال کی فکر میں رہنے والا ثواب کے اعتبار سے مجاہد ہے 


آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جب ہم میں سے کوئی اپنے اہل وعیال کیلئے (حلال ) خرچ حاصل کر نے کی فکر میں مغموم ہوکر رات گزار دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جہاد میں تلوار کے ہزاروں وار کرنے سے زیادہ افضل ہے ( مسند امام اعظم ) 
آثار صحابہ
حضرت عبد اللہ اب مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بیکاری پسند نہیں ،میں اس شخص پر حیرت زدہ ہوں جونہ دنیا کے کاموں میں مصروف ہو اور نہ دین میں لگا ہو ،( احیاء العلوم ۲ :۱۰۹ )
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں اپنے مرنے کیلئے سب سے زیادہ اس جگہ کو پسند کرونگا جہاں میں اپنے اہل وعیال کیلئے خرید وفروخت کرتاہوں ۔( احیاء العلوم ۲ :۱۱۰ )
ابراہیم نخعی ؒ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپکو امانت دار تاجر پسند ہے یا وہ شخص جو عبادت کیلئے فارغ ہو گیا ہو،آپ نے فرمایا مجھے امانت دار تاجر پسند ہے ،اس لئے کہ وہ جہاد کررہا ہے شیطان اسے ناپنے تولنے میں ، لینے دینے میں، اور خریدنے بیچنے میں راہ حق سے ہٹانا چاہتا ہے؛ لیکن وہ اسکی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اسکا مقابلہ کرتاہے، ( احیاء العلوم ۲ :۱۰۹ )
حضرت شیخ پھول پوری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص بازار میں ریا کے طور پر تسبیح پڑھ رہا ہے ،اورایک شخص اپنی بیوی بچے کی پرورش کی نیت سے بازار میں جام بیچ رہا ہے ،اور آواز لگاتا ہے ،جام لیلو،جام لیلو ،تو اس جام بیچنے والے کے ایک ایک بول پر ثواب مل رہا ہے ،اور اس تسبیح پڑھ والے کو ایک ایک بول پر گناہ مل رہا ہے ،
حضرت عیسی ؑ نے ایک شخص سے دریافت فرمایا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا ،میں عبادت کرتا ہوں ،حضرت عیسی ؑ نے اس سے فرمایا پھر تمہاری کفالت (کھانا،کپرا)کون کرتاہے ؟ اس نے کہا میرا بھائی ،حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا پھر تو تمہارا بھائی ثواب میں تم سے بڑھ گیا،(احیاء)
ان تمام آیت واحادیث اور اقوال فقہاء وسلف صالحین سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ دینا کمانا بقدر ضرورت کوئی گناہ کا کام نہیں ہے بلکہ حسن نیت شامل ہو جائے تو وہ بھی دین بن جاتا ہے ،
اللہ اکبر ! اللہ تعالی کی کی کس قدر عنایت ہے کہ وہ ہماری اپنی انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے پر بھی ثواب دے رہا ہے،اس تناظر میں کتنابد نصیب ہے وہ شخص جواب بھی دنیوی کاموں میں اللہ کی رضامندی کی نیت نہ کرے ،بلکہ اپنے نفس کی خوشی کیلئے دولت کو اکٹھا کرتا رہے ، اس لئے میں تما م دوستوں سے یہی گزارش کرونگا کہ جب ہمکو کام کرنا ہی ہے ،تجارت ،ملازمت ،صنعت وحرفت کرنا ہی ہے، تو کیوں نہ ہم اس میں بھی نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کی نیت کرلیں تاکہ ہم کو مزدوری بھی مل جائیگی اور مفت میں ثواب بھی مل جائے گا بس حسن نیت سے تجارت بھی دین بن جاتا ہے ،اللہ تعالی ہم سبھی لوگوں کو صحیح سمجھ عطا کرے، آمین 




Tuesday, December 6, 2016

مدارس میں سرکاری امداد کیوں نہیں لیتے

















بسم اللہ الرحمن الرحیم

(تعطیل بندی یاجمعہ بندی)


        دراصل اس تحریر کو اسی وقت سپر د قرطاس کرنے کی تمنا تھی جب قوم    وملت کے پیشواؤں ، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ نے مودی حکومت کے کڑوروں روپیے ٹھکرادے ،اور حکومت سے کسی قسم کی امداد لینے سے انکار کردئے۔جب دارالعلوم نے یہ قدم اٹھایا تو ہمیشہ کی طرح کچھ ضمیر فروش نے نقطہ چینی کی اور اس امداد کو نہ لینی پر تنقید کیا، آج کی تحریر انہیں عقل سے پیدل لوگوں کی تیمارداری میں نیٹ سے شائع کررہاہوں۔
۱۸۵۷ ؁ میں جب دہلی پر تاج برطانیہ لہرانے لگا اورہندوستان میں صدیوں چلتی ہوئی تعلیمی نظام کو کلیتاً ختم کر دیا گیا ،تواس وقت دور اندیش ،قوم وملت کے لئے جینے والی نفوس  قدسیہ نے مدراس اسلامیہ کا نیا جال بچھا یا ،جس کی ایک اہم معتبر تاریخی کڑی دارالعلوم دیوبند ہے ،جس کے ’’اصولِ ہشتگانہ‘‘ کے تحت دینی مدارس سرکاری امداد نہ لینے کے پابند ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جسکی پاسداری کرتے ہوئے دارالعلوم نے حکومت کی اس گراں قدر گرانٹ کو قبول کرنے سے انکا کر دیا ۔
اس انکار کی بے شمار وجہوں میں سے ایک عظیم وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری امداد دینی مدارس کی آزادی، خودمختاری، عزت و وقار اور اپنے اسلاف کی مسلسل متوارث روایات کے خلاف ہے ،کہ دینی مدارس کی حریت فکر و عمل اور آزادی اصل چیز ہے ،ہمارے اکابر واسلاف نے اب تک یہی طریقہ کار اختیار کی کہ حکومت سے کسی قسم کی امداد قبول نہیں کرنی ہے، بلکہ عوامی چندے اور تعاون سے مدارس کام کریں گے۔ سب سے اہم چیز ان مدارس کی آزادی اور خودمختاری ہے، یہ مدارس دین کی صحیح دعوت اوراسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اسی وقت تک کر سکتے ہیں جب تک یہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار رہیں گے،اور مدارس کی آزادی سرکاری امداد سے مجروح ہی نہیں بلکہ بالکلیہ ختم ہی ہوجائیگی ،جو لوگ آج مدارس کو گرانٹ دینے میں پیش پیش ہیں وہی کل دفعات ہند کا سہارا لیکر مدارس میں علوم دینیہ کی تعلیم پر روک لگا دیں گے ، 
جب کہ ملک میں یہ صورتِ حال ہے کہ حکومت سے امداد نہ لینے کہ صورت میں بھی وقتا فوقتا مدارس کو بند کرنے کی سازشیں کی جا تی ہے ،کبھی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے بتا ئے جاتے ہیں ،کبھی نظام تعلیم کو بدلنے کی پروپیگنڈے بنائے جاتے ہیں ،کبھی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو دہشت گرد بتا کر گرفتار کیا جاتا ہے ،کبھی مدارس کی تعلیم کو جہالت سے تعبیر کیا جا تاہے ۔
اخبار بینوں اور ملکی حالات سے باخبرحضرات پر یہ بات مخفی نہیں ہو گی ،کہ جب حکومت نے مدارس اسلامیہ کو گرانٹ دینے کا اعلان کیا ،تو ازہر ہند نے اپنی روایت و ثقافت کا ثبوت دیتے ہوئے بالکلیہ لینے سے انکار کر دیا ، ابھی یہ بات عوامی مذاکرہ میں چل ہی رہی تھی کہ حکومت نے ایک رنگ اور بدلتے ہوئے اعلان کیا ،کہ اب دینی مدارس ،مساجد اور مندر وں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا ،کتنا مضحکہ خیز انکا یہ اعلان معلوم ہوتا ہے جو حکومت ابھی کڑوروں روپیے مدارس کودان دینے کابرسر اقتدار اعلان کررہی ہے وہی حکومت کچھ ہی دنوں کے بعدمدارس ہی سے پیسے لینے کا اعلان کرتی ہے ،اس اعلان کے بعدمسلم پرسنل لا نے جگہ جگہ پروگرام کئے اور حکومت کو انکی غلطی سے آگاہ کیا ،اور انکو بتایا کہ یہ فیصلہ جہاں مذہبی اداروں کے متعلق ظلم ہے وہیں دفعات ہند کے تحت بھی غلط ہے ،دفعات ہند میں ایسے ادارہ تو درکنار ایسے شخص سے بھی ٹیکس نہ لینے کاقانون موجود ہے جن کی آمدنی کسی مذہب یا کسی مذہب کے خاص فرقہ کی ترقی کیلئے صراحتاً صرف ہوتا ہو۔
نیز سرکاری امداد پر چلنے والے مدارس کا انجام بھی اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہے۔قلیل وکثیربھارت کے ہر اسٹیٹ میں حکومت کی امداد پر مدارس چل رہے ہیں ،ان مدارس کی خودمختاری تو حکومت کی وراثت بن ہی گئی ساتھ ہی نام کے وہ مدارس تو رہے کام کے نہیں ،جب ہم بخارا ،سمرقند،کے مدارس کی حالتیں اپنے اکابرین کی کتا بوں پڑھتے ہیں تو نہایت افسوس ہو تا ہے ،جبکہ ہندوستان کے وہ مدارس جوحکومت کے زیر اثر آگئے ہیں ان مدارس کی حالت بھی بخا رااور سمرقندکے مدارس سے کوئی کم نہیں ہے ۔
ابھی حال ہی میں آسام کی موجودہ بی جے پی حکومت نے اپنے ہٹلر شاہی فرمان جاری کیا کہ آسام میں حکومت کے ذریعہ چلنے والے مدارس کو جمعہ کے دن اور رمضان المبارک کے مہینے میں اداروں کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ،اور کہاجمعہ کی چھٹی غیر قانونی ہے ،ہاں جمعہ کی نمازکے لئے ایک گھنٹے کی چھٹی دی جائی گی ،
آج برہمن واد کو پھیلانے والی حکومت جمعہ کی چھٹی کو قانون ہند کے خلاف کہتے ہو ئے پابندی لگا ری ہے توکیا بعید ہے ان سے آئندہ نماز جمعہ کیلئے بھی یہ کہکرپابندی لگا دیگی،کہ نماز جمعہ کیلیے چھٹی دینا دفعات ہند کےخلاف ہے،اور یہی انکا مقصد ہے ،کہ کس طرح سے مدارس سے دینی تعلیم کو ختم کر دیا جائے ،تو حقیقت میں یہ تعطیل بندی نہیں ہے بلکہ جمعہ بندی ہے ۔
لیکن جب تک مسلم قوم بیدار رہے گی اور اپنے اکابرین واسلاف کے بنائے ہوئے اصول کو بروئے کار لاتی رہے گی ان شاء اللہ دینی مدارس تو کیا دین کے کسی شعبہ پر حرف نہیں آسکتا ہے اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کرے۔ آمین

ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں

Monday, December 5, 2016

مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقام

                                         
                                       





                                                    بسم اللہ الرَّحمٰن الرَّحیم

مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقام

وَعَا شِرُواھُنَّ بِاالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰیٓ اَنْ تَکرَھُوْا شَیْئاًوَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیرًا کَثیرًا(النساء۹۱)اوران عورتوں (بیویوں) کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسرکرو اوراگروہ تم کوناپسندہوں توممکن ہے کہ تم ایک چیزکوناپسندکرواوراللہ تعالی اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھدے۔
بھارت کی حکومت اور کچھ نام نہاد مسلمان اسلام اورمسلمان کے مخالف طاقتوں کے آلہ کار کی جانب سے ٹیوی پر، پیپروں میں اسلام اورمسلمانوں کوبدنام کرنے کیلئے فرضی سوال اوراعتراض کئے جارہے ہیں کہ مسلم پرسنل لا ء کے تحت عورتوں پر ظلم ہورہاہے،مسلم پرسنل لاء میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کی گئی ہے؛تواس وقت ہم اور آپ اس اعتراض کی حقیقت تک پہونچ کرایک منصف مزاج کے ساتھ تجزیہ کریں کہ عورت شریعت میں مظلوم ہیں،یاان ظالم وجابر حاکم کی حکومت میں؟

اس اعتراض کی حقیقت جاننے کیلئے یاد رکھیں! عموما عورتوں پر تین دور آتے ہیں (۱)بیٹی (۲) بیوی (۳) ماں
توآئیے ان تینوں احوال میں شریعت نے عورتوں کو کیامقام دیا ہے،اوران چور حکومتوں نے کس قدرعورتوں کے حقوق کو پامال کیا ہے بنظر غائر دیکھتے ہیں۔

عورت بیٹی کی شکل میں

نبی رحمت ﷺ نے لڑکیوں کی پرورش پر جو فضائل اور بشارتیں امت کیلئے سنائی ہیں ان میں چند احادیث تذکرہ کرتا ہوں،
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺکے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت عائشہؓ سے ایک قصہ منقول ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دیدی، اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات)
ان روایتوں پر غور کریں تو معلوم ہو جائیگاکہ آپ ﷺ نے لڑکیوں کی پیدائش،پرورش، کفالت،حسن سلوک،شادی اور اسکی ذمہ داری پر کس قدر فضائل بیان کئے ہیں،کسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے چھٹکا را ہو جائیگا،تو کسی حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ جنت میں داخل ہو گا،اور آخری حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ایساشخص جنت میں میرے ساتھ ہو گا،یہ شریعت اسلامی کا لڑکی کے سلسلے میں ہدایات اور ان ہدایات پر عمل کرنے پر بشارتیں ہیں۔
دوسری جانب شریعت ومذہب سے ہٹ کر زندگی گزار نے والے کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا،کہ عرب اورعجم اورخودہمارے ملک بھارت میں لڑکی کی پیدائش کومعیوب سمجھاجاتاتھا،اولاً انکو پیداہی نہیں ہو نے دیا جا تا،اور اگر پیدا ہو بھی جاتی تو کہیں بیٹی کو معیوب سمجھ کر زندہ زمین میں دفن کردیا جاتا، تو کہیں نان و نفقہ کے ڈر سے ماردیاجاتاتھا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَالمَوءُ دَۃُسُئلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَت(التکویرآیت۸)ترجمہ اورجب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھاجائے گاکہ وہ کس گناہ پرقتل کی گئی،
وَلَا تَقْتُلُوْااَوْلَادَکُمْْ خَشْیَۃَ اِْملَاقٍ (بنیٓ اسرائیل آیت۳۱)کہ رزق کے خوف سے تم اپنے بچوں قتل کیامت کرو۔
آپ ملک بھارت ہی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس نظریئے بدکے تحت ابھی تک یہاں کی عوام زندگی گزاررہی ہے،اگرمعلوم ہوجاتاہے کہ پیٹ میں لڑکی ہے تو اس کو مختلف طریقوں سے ضائع کردیاجاتاہے،اوراس حمل کوضائع کرنے کے لئے دوا اورمشین کا استعمال کیاجاتاہے، آج کل تو ایسی مشین آگئی ہے جس سے رگ کودبادیتے ہیں اوروہ لڑکی مرجاتی ہے۔
اگرآپ کہتے ہیں کہ مفتی صاحب؟مشین والے نہیں بتاتے ہیں باضابطہ وہ بورڈ لگائے ہیں کہ یہاں الٹراسون میں،لڑکا،لڑکی،کا پتہ نہیں بتا یاجائیگا،یہ آپ کہہ رہے ہیں لیکن میں تویہ کہہ رہاہوں جہاں اس قسم کے بورڈ ہوتے ہیں وہی بتادیاجاتاہے،لیکن پوچھنے کا طریقہ الگ ہے،پھر فیس کے ساتھ ہزاروں میں گھوس بھی دیئے جاتے ہیں،اس وقت ملک کی حالت ایسی ہے کہ ہر اسٹیٹ میں لڑکی کی تناسب مسلسل کم ہوتی جارہی ہے چنانچہ یہاں رپوٹ نقل کررہاہوں ذرا اس پر بھی توجہ فرمالیں۔
علاقے اورصوبہ میں ہرایک ہزارمردپرعورتوں کی آبادی

علاقے اورصوبے
        ۱۹۸۱ ؁
         ۱۹۹۱ ؁
        ۲۰۰۱ ؁
دہلی
      ۸۰۸
        ۸۲۷
       ۸۲۱
اتر پر دیس
      ۸۸۵
        ۸۷۶
       ۸۹۸
راجستھان
      ۹۱۹
        ۹۱۰
       ۹۲۲
مدھیہ پردیس
     ۹۴۱
        ۹۱۲
       ۹۲۰
گجرات 
     ۹۴۲
       ۹۳۴
       ۹۲۱
مہاراشٹر
     ۹۳۷
       ۹۳۴
      ۹۲۲
گوا
     ۹۷۵
       ۹۶۷
      ۹۶۰

دمن
     ۱۰۶۲
        ۹۶۹
      ۷۰۹
مغربی بنگال
      ۹۱۱
        ۹۱۷
      ۹۳۴

اس تفصیلی اعداد وشمارسے آپ بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہندوستان میں دن بدن لڑکی کی پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے اور اگر یہ صورت حال رہی تو پھر ملک بھارت کو ہلاکت سے کوئی حکومت بچا نہیں سکتی ہے،اوراس کا مکمل طور پرذمہ دار بھارت کی حکومت ہے؛ کیونکہ انھوں نے آج سے تقریبا ساٹھ سال قبل نسبندی کا اعلان کیا اور ایمرجنسی سے قبل تو اعلانات ہوتے رہے پیپروں میں آتے رہے اورایمرجنسی کے بعد تو زبردستی نسبندی کیاگیا اگر کوئی ریلوے میں بغیر ٹکٹ پکڑا جاتا تو پولس اسٹیشن میں اسکا سب سے پہلے نسبندی کردیاجاتا، کوئی غلطی یا کوئی جرم میں پکڑاجاتا تواسکی نسبندی کردیجاتی،گلی گلی نعرے لگائے گئے اگلابچہ ابھی نہیں،دوکے بعد کبھی نہیں۔پہلا بچہ ابھی نہیں،ایک کے بعد کبھی نہیں،کم سنتان سکھی کسان، اوریہ نعرہ ہم دوہمارے دو،توبہت بعد کا ہے،اس کانتیجہ یہ ہوا کہ لوگ لڑکے کے حمل کوبرقرار رکھنے لگے اور لڑکی کے حمل کوضائع کرنے لگے اوریہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ملک بربادی کے آخری سیڑھی پرکھڑی ہے،

عورت بیوی کے شکل میں

والدین کے بعدانسان کا جو سب سے اہم تعلق ہے وہ زوجین کا تعلق ہے۔مردو عورت کا ازدواجی رشتے کی بنیاد پر محبت والفت سے ایسارشتہ قائم ہوتا ہے۔جس رشتہ کو خالق کائنات نے اپنی وحدانیت اور خالقیت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے:وَمِنْ آیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃًوَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍّ َیتَفَکَّرُوْنَ (روم آیت ۲۰/۲۱)اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے۔ تاکہ تم ان کے ذریعے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔‘‘
بیوی کو مردہی جیسا مقام:۔ خَلَقَکُمْ مِنْ نِفْسٍٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا (النساء: ۱)اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
انسان ہونے میں مرد وعورت سب یکساں ہیں۔میاں بیوی میں بحیثیت انسان کے کوئی فرق نہیں ہے۔


نہ تو مرد کے

لئے مردانگی قابل فخر ہے اور نہ عورت کے لئے نسوانیت باعث عار ہے، دونوں باعتبار تخلیق کے برابر درجہ کا ہے ارشاد باری ہے،’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ (التین: ۴) ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔ ان کے مابین فرق صرف اور صرف اعمال اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے جو جتنا بڑا متقی ہو گاوہ اتناہی بڑا عند اللہ مقام ومرتبہ کا حامل ہوگا،
نکاح کی اہمیت:۔ النِّکاحُ مِنْ سُنَّتِی۔نکاح میری سنت ہے وقالَ فی الحدیث الآخر فَمَن رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی پس جس نے میری سنت سے انکار کیاوہ مجھ میں سے نہیں،
بیوی کے ساتھ معاشرتی اہمیت:۔ وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً (النساء: ۹۱)اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے
حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰۃِ)  (النسائی )مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے،معلوم ہوا کہ بیوی ایک مرغوب شخصیت ہے،ان سے بے اعتنائی اور بے رغبتی ولایت کا معیار نہیں،
حسن معاشرت ایمان کی علامت:۔ خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(مشکوٰ?، باب عشرۃ النساء)تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ایک دوسری حدیث میں ہے، انَّ أکْمَلَ المؤمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(مشکوٰۃعن ترمذی) 
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال پرمہربان ہو۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ (البقرہ: ۱۸۷) عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا۔یعنی مرد و عورت آپس میں لباس کے مانند ہیں،کہ جس طرح انسان کپڑے پہن کر زیب وزینت حاصل کرتا ہے اسی طرح مرد عورت کیلئے اور عورت مرد کیلئے زیب وزینت ہے،
بیوی کیلئے معاشی(نان ونفقہ) حقوق:۔عَلَی الْمُوسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ(البقرہ۶۳۲) صاحب وسعت کے ذمہ اسکے حیثیت کے موافق ہے اورتنگدست کے ذمہ اسکی حیثیت کے موافق(بیوی پر خرچ کر نا واجب ہے)
بیوی کو تکلیف دینا حرام ہے:۔وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لِّتَعْتَدُواْ (البقرہ: ۱۳۲) ایذا دینے کے خیال سے بیوی کو(اپنی نکاح میں) نہ روک رکھوتاکہ تم (اس پر)زیادتی کرو۔
آج بڑے بے شرمی سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام میں عورت کو آزادی رائے کا حق نہیں ہے ان لوگوں کی خدمت میں بس ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتاہوں،ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کامہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)حضرت عمرؓ کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْئاً (النساء: ۲۰)اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو،جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلم عمرؓم حضرت عمرؓ نے انکی اس رائے کو نہیں کاٹا بلکہ اس عورت کی آزادیِ رائے کے تحت با ت کو پسند کیا، 
ان تمام آیات واحادیث سے بیوی کا کیا مقام ہے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔آج عقل سے پیدل اسلامی تعلیم سے عاری لوگ اسلام پراعتراض کرتے ہیں، کہ مسلمان اپنی بیوی کوتکلیف دیتے ہیں، ان بیہودہ گفتگو کرنے والے کو کیا معلوم!جس مذہب میں بلی کوستانے والے کو جہنم کاعذاب دیاگیا ہے،زبان نبوت نے اپنی امت کو تعلیم دیا،بخاری کی حدیث ہے کہ بلی کو ستانے والا جہنم میں گیا اور کتا کوپانی پلانے والی فاجرہ فاسقہ جنت میں گئی،تو وہ اسلام بیوی پر ظلم کرنے کی کیسے اجازت دے سکتی ہے۔یہ تو بیوی کا وہ مقام تھا جس کو شریعت نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے۔ 
ساتھ ہم ہلکی سی نگاہ غیروں کے مذہب پر بھی ڈالتے ہیں کہ ان کے یہاں بیوی (عورت)کا کیا مقام ہے؟ یونان کی قدیم تاریخ میں عورت ادنیٰ درجہ کی مخلوق ہے،روم میں عورت باپ کی پھرشوہر کی پھر نرینہ اولاد کی غلام ہے،عیسائی کے یہاں حضرت حوا کی غلطی کیوجہ سے انکی بیٹیاں یعنی عورتیں ہمیشہ محکوم رہے گی، ہندو مت میں عورت شوہر کو رات دن سون کرنے کیلئے ہے،خودہمارے ہندوستان میں ایک زمانے تک بیوی کوجب شوہرمرجاتاتو اسکو بھی شوہرکی چیتا میں جلادیاجاتا،اسلام کی مہربانی سے یہ سارے رسم ورواج ختم ہوگئے اور بیوی کو وہ مقام ملا جوکسی مذہب نے نہیں دیا،ابھی بھی عورت ان کے نزدیک ایک گِری پڑی چیز ہے،عورت کو ننگا کردیاگیا،اس کے جسم کو بیچا گیا، اس کے اخلاق وکردار کو بیچا گیا،اس کے ہرہر عضو کو بیچاگیا،جوحکومت بڑے بڑے ہوٹلوں میں ناچ کے لئے لائسنس دیتی ہو،جو حکومت بئیربار میں عورتوں کو ناچ نے کیلئے لائسنس دیتی ہو،زنا کے لئے اور فحش کام کے لئے لائسنس دیتی ہو،بلو فلم بنانے کے لئے جس ملک میں اجازت ملتا ہو، وہ حکومت عورتوں کی عزت کی بات کرے اورعورتوں پر ظلم کی بات کرے، کیا عورتوں کو ننگاکرنا،ان کے ساتھ بلوفلم بنانا،ان کے جسم کو بیچنا، اشتہار بازی کیلئے انکے ہر عضو کو نمائش کرنا،کیا یہ عورتوں پرظلم نہیں ہے،کیا یہ سارے کام حکومت کو نظر نہیں آتی ہے؟آتی ہے،اور آتی ہی نہیں ہے بلکہ ان کاموں کے لئے حکومت پرمیشن بھی دیتی ہے۔
عورتوں کیلئے تیسرا دور ماں والی ہے، آئیے ماں کے سلسلے میں موازنہ کر لیتے ہیں کہ شریعت میں ماں کو کیا مقام دیا گیا ہے اور حکومت کی نگا ہ میں ماں کی کیا اہمیت ہے؟

ماں کی اہمیت وفضیلت شریعت میں

ماں دنیاں کی وہ عظیم ترین ہستی ہے جوخالق کائنات کی عظیم ترین صفت رحمن ورحیم کامظہر ہے،انہیں کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت کا ظہور کیا،ماں کے فضائل پر جتنابھی لکھاجائے کم ہی پر جائیگاپھر بھی یہاں نہایت اختصار کے ساتھ چند آیات واحادیث پیش کررہاہوں جس سے ماں کو شریعت میں کیا مقام دیاگیا ہے بخوبی معلوم ہو جائیگا،ارشاد باری ہے: وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً،،(بنی اسرآئیل: ۲۳۔۲۴)اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں سے ایک پہنچے یا دونوں (تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب اچھی طرح سے با ت کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا:اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے، 
وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسٰناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَّوَضَعَتْہُ کُرْہاً (احقاف ۱۵)کہ ہم نے انسان پر ضروری قرار دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے(کیونکہ)اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:ر ضا اللّٰہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللّٰہِ مع سخطِ الوالدین(شعب الإیمان)یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔ 
اِنَّ الجَنَّتَ تَحْتَ اَقْدَامِ الاِمَّھَات ترجمہ۔بیشک جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔یہ قرآن واحادیث ہیں جوہم کوماں کی اہمیت بتاتی ہے ماں کی خدمت کرنے والا جنتی ہے اوراس کو تکلیف دینے والا جہنمی ہے یہ تو ہے عورت کاوہ مقام جنکومذہب اسلام نے دیا ہے اس کے مدے مقابل غیروں کے یہاں ماں کاکیا تصور ہے مکمل اس کوبیان نہیں کرتا،یہ مختصر مضمون ہے تاہم اس سلسلے میں ایک چھوٹا واقعہ ذکر کردیتاہوں،جس سے اندازہ لگائیں گے ان غیرون نے ماں کوکتناذلیل ورسوا کیا ہے،

واقعہ

امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ دائرکیا کہ میرا بیٹا گھرمیں کتا پالاہواہے اوریہ روزانہ کتے کیساتھ تین چار گھنٹے صرف کرتاہے یہ اسے نہلاتا ہے اسکی ضروریات پوری کرتاہے،اسکواپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتاہے،وہ اپنے کتے کوروزانہ سیر بھی کرواتاہے اسے کھلاتا،پلاتا بھی ہے میں بھی اسی گھر کے دوسرے کمرے میں رہتی ہوں؛ لیکن یہ میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا،اسلئے عدالت کو چاہئے کہ وہ میرے بیٹے کو پابند کرے کہ وہ روزانہ میرے کمرہ میں آیا کرے جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمہ لڑنے کے لئے تیاری کرلی،ماں نے وکیل بنالیا اوربیٹے نے بھی وکیل بنالیا جب دونوں کے وکیل جج صاحب کے سامنے پیش ہوئے تو جج صاحب نے مقدمہ کے سماعت کے بعد فیصلہ دیا اور ایسا فیصلہ کیا کہ استغفر اللہ پوری زمین کا نپ گئی ہو گی،ماں کی ممتا کے سمندر میں طغیانی آگئی ہو گی،جج نے فیصلہ کیاکہ عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں پانچ منٹ کیلئے بھی آنے پر مجبور نہیں کرسکتی کیونکہ مقامی قانون ہیکہ جب اولاد ۱۸ سال کی عمرکوپہنچ جائے،اس کوحق حاصل ہوتاہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو چاہے تو کچھ وقت دے یا بالکل علیحدگی اختیار کرلے، رہی بات کتے کی تو کتے کے اس کے اوپر حقوق ہیں جن کو ادا کرنا اسکی ذمہ داری ہے البتہ اگر ماں کو کوئی تکلیف ہے تو اسکو چاہئے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے وہ اسے بوڑہوں کے گھر میں لے جائیں گے۔
اس مختصر سے مقالہ میں ہم نے عورتوں کے تینوں دور کا اسلامی نقطہ نظر اور غیروں کے نقطہ نظر سے موازنہ کیا ہے،اور اس موازنہ کے بعد فیصلہ کر نے کی ضرورت نہیں ہے،بس جس کا عقل ماؤف نہ ہوا ہو،قلم بک نہ گیا ہو،جس کادھرم بک نہ گیا ہو،وہ نہایت آسانی کے ساتھ بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ اِنَّ .الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الِاسْلَامُ(اٰل عمران۱۹)
اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے،آمین
نوٹ: مذکورہ مضمون دراصل میرا(مفتی عبداللہ عزرائیل صاحب) کابیان ہے جسکو ہم نے بروز جمعہ جامع مسجد میں کیا تھا اسی کو تحریری جامہ پہنا کر ترتیب نو اور تحقیق کے ساتھ حضرت مولانامحمد فیض الرحمن قاسمی استاذ مدرسہ دارالعلوم نورانی چند گڑھ نے افائد عام کے پیش نظر نیٹ سے شائع کیا ہے ،اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نواز کر امت کے لئے اور خاص کرمعترض کیلئے ذریعہ ہدایت بنائیں۔آمین 

 ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں