Saturday, August 3, 2024

فتنۂ شکیلیت کا تعاقب و تجزیہ



فتنۂ شکیلیت کا تعاقب و تجزیہ
شکیل بن حنیف، دربھنگہ، بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل دہلی میں تھا،مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی؛ لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلا، دہلی کے زمانہٴ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے؛ لیکن جیسے ہی لوگوں کو اس کی حرکتوں کی اطلاع ہوتی، وہ اس کے خلاف ایکشن لیتے اور اسے اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا، بالآخر اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آبادکے’’رحمت نگر‘‘ میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ”حواری“ رہتے ہیں۔
 ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے، دہلی، بہار، مہاراشٹر وآندھرا پردیش وغیرہ میں اس کے فتنہ میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں،شدہ شدہ یہ فتنہ مدہوبنی میں کئی گھروں میں داخل ہوچکی ہے۔
شکیل بن حنیف دو فتنوں کا جامع
پہلا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو امام مہدی کہتا ہے۔ دوسرا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام بھی کہتا ہے۔
فتنہ اول :۔  علامات مہدی کی روشنی میں شکیل کا جائزہ:
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ شکیل غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔
حضرت مہدی کی متعلق  رسول اکرم ﷺ  کی حدیثوں میں متعدد علامتیں موجود ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کر تے ہوئے ان کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیں گے:
۱- رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، (ابوداود، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل، شکیل بن حنیف ہے، محمد بن عبد اللہ نہیں۔
۲- رسول اللہ ﷺ  نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہدی آپ کی ہی نسل سے ہوں گے،اور ان کا سلسلہٴ نسب حضرت فاطمہ تک پہنچے گا، (ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)۔ جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہی ہے۔
۳- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی کے ہوں گے یعنی گورے رنگ کے ہوں گے،(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایسا نہیں ہے۔
۴- رسول اللہ ﷺ  نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
۵- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمراں بھی ہوں گے، (ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)، اور شکیل حکمرانی کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
۶- احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے (ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)، جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
فتنہ دوم :۔ شکیل اور حضرت عیسیٰ  ؑ
حضرت عیسیٰ  ؑکی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کی بابت بھی قرآن اور حدیث میں کچھ ایسی واضح باتیں بتادی گئی ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر شکیل وقادیانی جیسے ہر جھوٹے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ذیل میں ایسی ہی چند علامتیں درج کی جاتی ہیں:
۱- اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑکی آمد کے سلسلہ میں آں حضرت  ﷺ  نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس سے یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ وہی عیسی بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور جن کی والدہ حضرت مریم تھیں اور جو بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے، صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں ایسی کئی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن میں قیامت کے قریب آپ کی آمد کا تذکرہ ہے اور آپ کا نام عیسیٰ بن مریم ہی لیا گیا ہے، ان میں سے چند روایتیں ابھی آپ پڑھیں گے۔ اور مہدی وعیسی ہونے کا یہ دعوے دار شکیل بن حنیف ہے، ہندوستان کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ عیسیٰ بن مریم نہیں ہے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے اور جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جن کی والدہ کا نام مریم تھا۔
۲- حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے سلسلہ میں متعدد احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اتریں گے (مثلا ملاحظہ ہو: بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، )؛جب کہ یہ شکیل بن حنیف عثمان پور نامی ایک گاوٴں میں اپنے والد حنیف کے یہاں پیدا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اترا ہے۔
۳- صحیح بخاری وصحیح مسلم کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ  کا ارشاد ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمراں بن کرضرور نازل ہونگے، صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہوجائے گی)، خنزیر (کی نسل) کو قتل کردیں گے،  اور مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (بخاری ،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، مسلم ،کتاب الایمان، باب نزول عیسی بن مریم)
اب ذرا اس حدیث کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیجیے، وہ نہ اب تک حکمراں بنا ہے اور نہ حکمرانی کا کوئی ارادہ رکھتا ہے، وہ تو اورنگ آباد، مہاراشٹر کے پاس کی ایک بستی میں چھپا بیٹھا ہے، اور وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور اس نے نہ کبھی کوئی صلیب توڑی ہے اور نہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، نہ خنزیروں کوقتل کیا ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں مال ودولت کی فراوانی ہوئی ہے اور نہ غربت کا خاتمہ ہوا ہے کہ صدقات لینے والا کوئی نہ ملے۔
۴- قرآن مجید نے سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہلِ کتاب (یہودی وعیسائی) مسلمان ہوجائیں گے: ”وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ“ اور شکیل کے ہاتھ پر اب تک ایک بھی عیسائی اسلام نہیں لایا۔
ان کے علاوہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ  ؑ کی بابت اور بھی علامتیں یا پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ لیکن قرآن وصحیح احادیث میں مذکور یہی چار علامتیں شکیل کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اس مختصر سے مضمون میں مزید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اس فتنہ کا مقابلہ کیسے ہو؟
یہ فتنہ چونکہ بہت رازداری کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے؛ اس لیے عام طور پر جب کسی علاقہ کے خادمانِ دین کو اپنے علاقے کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس فتنہ کے داعی سرگرم ہیں،تو اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے اور کئی نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے ہیں؛ اس لیے کسی بھی علاقہ میں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں فتنہ کی آمد کی خبر ملے گی تو پھر فکر کریں گے؛ اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں یہ سرگرم ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو، صورتِ حال کی خطرناکی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن علاقوں کے سلسلے میں یہ اطمینان تھا کہ یہاں یہ فتنہ موجود نہیں ہے، وہاں کے ائمہٴ مساجد نے بھی جب اپنی مسجدوں میں اس مسئلہ پر گفتگو کی تو کچھ نوجوانوں نے ان میں سے کچھ ائمہ کو بتایا کہ اس طرح کے لوگوں نے ہم سے بھی رابطہ کیا ہے؛ اس لیے ضرورت  ہے کہ کسی بھی علاقہ کے سلسلہ میں اطمینان نہ کیا جائے، اور پہلے سے ہی عوام کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے؛ تاکہ اگر یہ فتنہ آپ کے علاقہ میں نہ پہنچا ہو تو اس کی آمد کو روکا جاسکے، اور اگر خدانخواستہ پہنچ گیا ہو تو اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
اس فتنہ کے مقابلہ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر علاقہ کی تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر اس سلسلہ میں گفتگو کرکے لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، اسی طرح ہم ان لوگوں کو فتنہ سے آگاہ کرسکتے ہیں جن کو اس فتنہ کے داعیان اپنا مخاطب بناتے ہیں، 
فتویٰ: شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کافر ومرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اگر ان میں سے کسی کا اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس کی نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ اُسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
فتویٰ: شکیل بن حنیف اپنے عقائد کی وجہ سے کافر مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جو لوگ اس کو سچا مان کر اسے امام مہدی اور مسیح موعود عیسی علیہ السلام مانتے ہیں یا اس عقیدہ پر اُس کے ہاتھ پر بیعت ہوتے ہیں، وہ بھی بلا شبہہ کافرو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ، ایسے لوگوں سے تعلقات ترک کرنا ، اُن سے معاملات اور معاشرت میں دوری اور کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے ، ایسے لوگ اگر سلام کریں، تو ان کے جواب میں ہداک اللہ کہدینا چاہیے ۔

                نوٹ: یہ مضمون نیٹ سے لیاگیا ہے خاص کر کے دارالعلوم دیوبند کے ویب سائٹ سے

 
اس کو بھی پڑھیں

Thursday, August 1, 2024

شکیل بن حنیف کے متعلق دارالعلوم کا فتویٰ






شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی دائرہ اسلام سے خارج ہیں، انہیں مساجد سے دور رکھا جائے: مفتی ابوالقاسم نعمانی ابو القاسم نعمانی اور دیگر ےمام ارباب فتاویٰ نے  نے شکیل بن حنیف  اور اس کے پیروکار کو اسلام سے خارج قرار دیا پوری تفصیل کیلئےدارالعلوم سے لکھی گئی  کتاب "شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کا شرعی حکم " نیچے کے لنک پر کلک کرکےپڑھیں ۔ 



اسی کےساتھ ہی ایک  کتاب " فتنہ شکیل بن حنیف  تعارف وع تجزیہ" کو بھی پڑھیں۔



فتنہ شکیل بن حنیف تعارف تجزیہ


Wednesday, September 6, 2023

موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری، موجودہ حالات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل

 

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     

ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام

قائین کرام پیش نظر گراں قدر اصلاحی پر مغز مضمون در اصل حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم (شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی خطاب ہے ،جو موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری،جس کو مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانی، نے پڑی محنت سے ترتیب و تلخیص کیا ہے ، راقم نے اشاعت دین کے پیش نظر شائع کررہا ہے ، اللہ تعالیٰ حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ مرتب و راقم کیلئے زاد آخرت بنائے آمین ۔

            اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے، حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانیں جل جاتی تھیں، کچھ مکانات میں آگ لگ جاتی تھی، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتے تھے؛ لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں،اسلامی حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے نیز اس طرح کے کئی ایک مسائل(جن کا اسلامی تشخص سے تعلق ہے) برابر اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور گندا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

            ابھی حالیہ دنوں میں The Kashmir file کے نام سے کشمیری پنڈتوں سے متعلق ایک فلم بنائی گئی اور پورے ملک میں دکھائی گئی؛جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف غیرمسلوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو، وہ اشتعال میں آئیں اور انتقامی کارروائی کے لیے انھیں ابھارا جائے۔

            ناموافق حالات مسلسل آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و ادراک نہیں۔سب جانتے ہیں؛مگر اس کے مقابلے کے لیے تیار نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلاتے ہیں یا اپنے کو فکرمند ظاہرکرتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہے ہیں، عام مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی ہے،آج میں یہی بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں تین کام ہیں جو اس وقت ہمارے کرنے کے ہیں۔میں سب سے پہلے اپنے آپ سے مخاطب ہوں،پھر اپنے اہلِ خانہ و متعلقین سے، پھر اہلِ محلہ و اہلِ شہر سے اور پورے ملک کے لوگوں سے جہاں تک یہ آواز پہونچ سکتی ہے۔

پہلا کام

            سب سے پہلی چیز اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اعمال و اخلاق کو درست کریں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَہِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ (آل عمران:۱۳۹) تم کمزور مت پڑو اور رنجیدہ مت ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرطے کہ تم ایمان والے ہو،یعنی ایمان تمہارے اندر مضبوط ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہو تو یقینی طور پر تمہیں کامیابی اور سربلندی ملے گی۔یاد رکھیں!یہ اللہ کا جو اعلان ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ہے: فلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً (فاطر:۴۳)تم ہرگز اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے، اللہ کے فیصلہ میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا،جو ضابطہ ہے،وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

            لہٰذا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ کمزور نہ پڑیں، بزدل نہ بنیں، دل کے اندرایمانی قوت پیدا کریں، موت ایک مرتبہ آنی ہے اور وقت مقرر پر آنی ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، اس کا استحضار رکھیں۔

موت کا ایک دن معین ہے، ایمان کی بنیادی چیزوں میں یہ بات شامل ہے کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اپنی عمر متعین کرواکے آتاہے: فاذَا جَآءَ أَجَلُہُمْ لَا یَسْتاْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:۳۴) جب مرنے کا متعین وقت آجاتاہے تو بندہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتاہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے آسکتاہے۔قرآن مجید کے مطابق آدمی اگر مضبوط قلعوں کے اندر بھی چھپ کر بیٹھے گا تو موت وہاں پہونچ کر رہے گی؛ اس لیے موت تو آنی ہے، ہر ایک کو آنی ہے،اپنے وقت پر آنی ہے اور صرف ایک مرتبہ آنی ہے؛لہٰذا موت کے خوف سے آدمی کا ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنے دل کو کمزور کرنا یہ ایمانی قوت کے بالکل خلاف ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ ان کو میدان جنگ میں برچھی لگتی تو وہ کہتے: فُزتُ وَرَبِ الکَعبَة خدا کی قسم میں تو کامیاب ہوگیا؛ اس لیے دل کو مضبوط رکھیں اور جو کام کرنے کے ہیں،انھیں کرتے رہیں،ایمان کو طاقت وربنانے کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کریں، اخلاق کو درست کریں، جلوت اور خلوت کی زندگی کو تقوی والی زندگی بنائیں، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائیں،رمضان ہو کہ غیر رمضان نمازوں کا اہتمام سو فیصد ہو،دیگر اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا رہیں،اسی طرح جو ہماری اخلاقی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں، ان سے خود بھی رکیں اور توبہ کریں، ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں کو، بچوں کو،عورتوں کو، جوانوں کو ان سے روکیں، ماحول سے خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؛ اس لیے کہ اللہ کی مدد تقوی اور صبر کے ساتھ مشروط ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّٰہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ(یوسف:۹۰) جو آدمی تقوی اختیار کرتا ہے،اللہ سے ڈرتاہے اور دین پر جم جاتاہے،اللہ تعالی اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی اِسی تقوی اور صبر کی بنیادپر مدد ہوئی ہے؛ لہٰذا ہم بھی اپنے ایمان کو بنائیں، اعمال کو درست کریں اور اخلاق کو سنوارنے کی فکر کریں۔

دوسرا کام

            دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛اس لیے کہ ایک تصویر تو اسلام اور مسلمانوں کی وہ ہے جو دوسروں کی طرف سے دنیا والوں کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ یہ متشدد ہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں، قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ اور ایک اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے،جس پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے،یعنی ہم امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہم دردی کرنے والے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!اغیار کی غلط تشہیروں، فرضی فلموں اور بے بنیادپروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور بٹھایا جارہاہے،یہ صرف تقاریرو بیانات سے ختم نہیں ہوگا؛بل کہ عمل کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔

            آپ دیکھ لیجیے!ابھی سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،زندگی کے لالے پڑے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا ہے، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا، اُس کا اثر برادرانِ وطن پر پڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے تھے، ان کے اندر احساس پیداہوا اور اُنھیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں غلط رائے رکھتے تھے!۔ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہر کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ زندہ رہیں اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے:

اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

            ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے، محبت کا پیغام پہونچانا چاہیے اور محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہرگز دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے،جو حالات چل رہے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی سیاسی پارٹی اِن کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈرکھل کر سامنے آرہاہے، ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے؛ اس لیے اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں اور دل کے اندر ہمت پیدا کریں۔اب رہا یہ سوال کہ حالات کی بنا پر جو دل میں کمزوری آرہی ہے،ذہن میں جوخوف بیٹھا ہواہے،عجیب طرح کی دہشت طاری ہے،اس کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کیسے دور ہوگی؟

ہماری بے وزنی کا اصل سبب

            اس موقع پر ایک حدیث یاد آئی، جو پہلے سے آپ کے علم میں ہوگی اور آپ بارہا سن چکے ہوں گے،وہ حدیث آج کے حالات پر من وعن صادق آرہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأکلَةُ إِلَی قَصْعَتِہَا. فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ: ”بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَةَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنَ“ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الْوَہَنُ قَالَ: ”حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَةُ الْمَوْتِ

            ترجمہ:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،(آپ…کا یہ فرمان سن کر) ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ … نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے؛لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بے وقعت) ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ”وہن“ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ …نے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے۔(ابوداؤد)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ پیشین گوئی فرمائی تھی، اس وقت صحابہ کرامکی شوکت تھی، قوت تھی دبدبہ تھا،ایک مہینے کے فاصلہ تک ان کا رعب پہونچا ہوا تھا؛اس لیے وہ آپ … کا ارشاد سن کر تعجب سے کہنے لگے: کیا اُس وقت ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ…نے فرمایا:نہیں! تم لوگ اُس وقت تعداد میں بہت ہوگے؛ لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب کے زمانے میں پانی کی سطح پر بہنے والے کوڑے کرکٹ اور جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے،نہ ان کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے،نہ ان کے اندر کوئی طاقت و قوت ہوتی ہے، وہ بہاؤ سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتے، پانی کا بہاؤ جدھر لیے جارہاہے، بہتے چلے جارہے ہیں، کہیں کوئی چیز آگئی ٹکرا گئے،نشیب آیا تو نیچے گرگئے۔ بالکل اِسی طرح تم بے وقعت ہوجاؤگے۔

            مزید فرمایا:اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا۔ صحابہنے پوچھا کہ یہ بزدلی کہاں سے آئے گی اورکیوں آئے گی؟آپ …نے فرمایا:اس کے دو سبب ہوں گے:دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت۔یہ دو اسباب ہیں جو بزدلی لانے والے اوردل میں کمزوری پیدا کرنے والے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو اسباب کمزوری اور بزدلی لانے والے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو ختم کیاجائے اور انھیں ہٹانے کی کوشش کی جائے۔

دنیا کی محبت کیا ہے؟

            دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں اور دنیا کی فانی لذتوں کے اسیر بن جائیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نیند ہمیں پیاری ہے،نماز پیاری نہیں،ہم سود لے رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، وارثوں کا حق مار رہے ہیں،پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں اور یہ سب کام چار پیسے کی خاطر، تھوڑی سی لذت اور تھوڑی سی راحت کی خاطر کیے جارہے ہیں،یہی حب الدنیا ہے؛جس کے ہوتے ہوئے اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ایک مقام پرارشاد باری ہے:

 قُلْ إِن کَانَ آبَآؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَٰنُکُمْ وَأَزْوَٰجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَٰلٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَٰسِقِینَ.(التوبة:۲۴)

            ترجمہ: اے پیغمبر! مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں،تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔

            یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن راستوں سے یہ کمزوری آرہی ہے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی کے ہاں ایمان و اعمال کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اورایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ صحابہ پر حالات آئے، غزوہ احد میں حالات آئے، غزوہ حنین میں حالات آئے اور صرف آپ … ہی پر نہیں،پچھلے انبیاء کرام پر بھی حالات آئے؛ جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا کہ انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور اُن کے امتی کہنے لگے آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ فرماتے ہیں: سنو!اللہ کی مدد قریب ہے۔

            ایک مقام پراسی ابتلاوآزمائش کا یوں ذکر کیاگیا: وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن(البقرة:۱۵۵) ہم ضرور تم کو آزمائیں گے؟ کس چیز سے آزمائیں گے؟ کچھ خوف میں مبتلا کریں گے،فاقے میں مبتلا کریں گے،مالوں کی کمی میں مبتلا کریں گے،جانوں کی کمی میں مبتلا کریں گے، پیداوار کی قلت کے ذریعہ آزمائیں گے،یہ سارے حالات ہماری طرف سے ضرور بالضرور آئیں گے؛لیکن یہ امتحان ہوگا اور امتحان کس لیے ہوتاہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس میں کامیاب ہوتاہے اور کون ناکام ہوتاہے۔ جو کامیاب ہوتاہے وہ نوازاجاتاہے اور جو ناکام ہوتاہے اس کو سزا ملتی ہے۔پھرفرمایا: اِس امتحان کے اندر کامیابی انھیں لوگوں کو ملے گی جو ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔صبر کے معنی صرف مصیبت کو برداشت کرنانہیں ہے؛ بلکہ مصیبت ہو یا راحت ہر حال میں دین پر جمے رہنا، ہر طاعت کو اختیار کرنا،ہر معصیت سے اپنے نفس کو روک کر رکھنا اور حالات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر انھیں برداشت کرنا، یہ صبر کا مجموعہ ہے یعنی طاعت پرصبر، معصیت سے بچنے کے لیے صبراور مصیبت پرصبر۔ جہاں یہ صبر کی تینوں قسمیں پائی جائیں گی،اللہ فرماتے ہیں:ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے !جن کا شیوہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے؛یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خصوصی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور عام رحمت میں بھی ان کا حصہ ہوتا ہے اور یہی سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔

تیسرا کام

            ان حالات میں تیسرا کام یہ ہے کہ ہم دعاؤں کا اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے، صرف آیاتِ کریمہ کا ختم کرنے سے اور صرف حصنِ حصین پڑھ کر ہاتھ اٹھانے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے اپنے آپ کو بدلنے سے اور اپنے اندر انقلاب پیداکرنے سے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

            ہم اپنے کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،اللہ تعالی کے یہاں فیصلے اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک ہی دعائیں قبول کریں گے؛ لیکن دعاؤں کے ساتھ ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا ؛اس لیے صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں۔

خلاصہٴ کلام

            ابھی جو باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں، اجمالی طور پر ان کا اعادہ مناسب سمجھتا ہوں۔سب سے پہلی بات: اپنا ایمان مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔

            دوسری بات : برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے؛ تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے جو کوشش ہورہی ہے اس کا عملی توڑ ہوسکے۔

            تیسری بات :دعا ئیں کرتے رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی، وہ ایک مرتبہ آئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے کانپتے رہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، اپنی حفاظت کا حق شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،اس کا استعمال کریں، خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں کہ ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں۔ہم امن و امان کے محافظ ہیں؛ اس لیے اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں؛ لیکن اگر ہماری جان و مال اورعزت وآبرو پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر نہ لگائیں ؛بلکہ اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں، ان کے ذریعہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں!اخیر میں پھر کہوں گا کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا ، ایمان والے کی شان نہیں ہے۔

            اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے،آمین!

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏،16 محرم الحرام  1445ہجری مطابق 4اگست.2023ء