Saturday, August 12, 2023

آزادی کے نعرے

 



یوم آزادی کے ولولہ انگیز نعرے

1

انقلاب

زندہ باد— زندہ باد

2

گلی گلی میں نعرہ ہے

ہندوستان ہمارا ہے

3

15،اگست

آج ہے

4

ہمارا ہندوستان

آزاد رہے

5

ملک کی حفاظت

ہم کریں گے

6

جو ہندوستان سے ٹکراےگا

چور چور ہو جائے گا

7

حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

8

مولانا محمود حسن دیوبندیؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

9

مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

10

مولانا قاسم نانوتوی ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

11

مولانا حسین احمد مدنی ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

12

مولانا ابوالکلام آزاد ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

13

مولانا حسرت موہانی ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

14

مولانا محمد علی جوہر ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

15

مولانا شوکت علی ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

16

مولانا مظہر الحق ؒ

زندہ باد  ،زندہ باد

17

ڈاکٹر ذاکر حسین

زندہ باد  ،زندہ باد

18

حکیم اجمل خان

زندہ باد  ،زندہ باد

19

خان عبد الغفار خان

زندہ باد  ،زندہ باد

20

شہید اشفاق اللہ خان

زندہ باد  ،زندہ باد

21

مہاتما گاندھی

زندہ باد  ،زندہ باد

22

چندر شیکھر بوس

زندہ باد  ،زندہ باد

23

سردار پٹیل

زندہ باد  ،زندہ باد

24

بھگت سنگھ

زندہ باد  ،زندہ باد

25

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر

زندہ باد  ،زندہ باد

26

ڈاکٹر رام منوہر لوہیا

زندہ باد  ،زندہ باد

 


Monday, August 7, 2023

ہندوستان کی آزادی

                  

ہندوستان کی آزادی

انصاف ور مؤرخوں نےاپنی کتاب میں اس سچی تاریخ کو بھی رقمطرازکیا ہےکہ مسلمانوں کی تقریبا دوسوسال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا دن میسر ہوا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانے کے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا۔ آج جو اطمینا ن اور سکون اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے،یہی تاریخی حقیقت اور ناقابل ِ فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، ان حالات میں بھی برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے ہی چھیناتھا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔آیئے تاریخی کتب اور مؤرخین کے حوالے سے اس حقیقت کو سمجھیں ۔

17 ویں صدی میں یورپی تجار ملک بھارت میں آنا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنی جگہ جگہ چوکیاں قائم کر لیں۔ آہستہ آہستہ فوج جمع کرکے دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور فوج قائم کرلی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے  مختلف علاقائی راجاؤں کو اپنے زیر اثر لے لیا اور بالآخر اٹھارہویں صدی میں کمپنی راج قائم کر لیا اور یوں وہ ہندوستان کی غالب طاقت بن گئی۔اور ہندوستانیوں پر نت نئے طریقے سے ظلم ستم کے پہاڑ توڑ نے لگے،اور جب ظلم و بربریت کی انتہاء ہوگئی تو سلسلہ وار مسلمانوں کے قائدین اور مسلم حکمرانوں نے کمپنی راج ختم کرنے کیلئے کئی مرتبہ جنگ کی جس کا مختصر تاریخ حسب ذیل ہے :

علی وردی خان اور نواب سراج الدولہ

انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے ،اور انگریز سے خطرہ محسوس کرکے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگراپنوں کی سازش کی وجہ سےانہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔نیز پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی میں بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح قابض ہوگئے۔

حیدر علی اور ٹیپو سلطان ؒ

دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے بیٹے ٹیپوسلطان  نے بھی انگریزوں سے جنگ کی ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے کئی جنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی جس میں انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکر سرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ’’گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے‘‘۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔‘‘(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷)

شاہ عبد العزیز اور ان کے رفقاء

 شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمہ الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھاتے ہوئے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قرار دیا گیا اور سیداحمد شہید رائے بریلوی رحمہ الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمہ الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ انگریزوں  کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛آپ کے بعدمولانا نصیرالدین دہلوی رحمہ الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات کے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمہ الله  (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اور یہ سلسلہ چلتارہا یہاں تک کہ  1857ء  ۔

1857ء میں علماء کرام

1857 ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ جن میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمہ الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمہ الله مولاناسرفراز رحمہ الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله ،حافظ ضامن شہید رحمہ الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمہ الله خاص طور پر قابل ذکرہیں۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا ۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ’’مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمہ الله کوانڈمان بطور سزابھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمہ الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی  رحمہ الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ الله  وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله  اورمولانا جعفر تھانیسری رحمہ الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمہ الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:’’ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ 1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمہ الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمہ الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن  رحمہ الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے۔مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ کے بعدچند دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا ۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی۔

مؤرخ لکھتے ہیں : اس 18 57 کی جنگ میں جو تقریباّ پورے ہندوستان میں شروع ہوچکی تھی اس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جس میں 5000 صرف علماء تھے۔کہا جاتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر دہلی سے کلکتہ تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔

 

انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ

1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا، کے بانیوں میں دیگرمسلمانوں کے ساتھ بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی بھی شامل تھے،  ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میں موہن داس گاندھی، جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، راجندرہ پرساد، خان عبدالغفار خان اور ابو الکلام آزاد زیادہ معروف ہیں۔کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی،اسی جماعت کا تقریبا  9 صدور مسلم ہوئے ہیں ۔

گاندھی جی اور آزادی

موہن داس کرم چند گاندھی،1915ء میں جب افریقہ سے واپس ہوئے اور اپنے ملک کے لوگوں کا حال دیکھاخاص کرکے امرتسر میں جنرل ڈائر نے 20 ہزار افراد کے ہجوم پر فائرنگ کر دی جس میں 400 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1300 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔اس قتل عام کے بعد گاندھی کو یقین ہوگیا کہ انھیں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا باضابطہ آغاز  کرنا چاہیے۔اور اسطرح وہ انڈین نیشنل کانگرس کا کا نمایاں چہرہ بن گئے۔ اوربرطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے رہنما بھی بنے۔

جمعیت کا قیام

1919ء میں جمعیت علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمہ الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمہ الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمہ الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمہ الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمہ الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمہ الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔

تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد

1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ پیش آیا جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران (مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمہ الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمہ الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے،الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریکِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔

تحریکِ ترک موالات

1920ء میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷)

1921ء میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔ مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے،

 مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمود، مولوی احمد اللہ، شہزادہ فیروز شاہ، بخت خاں، نواب ولی داد خاں (مالا گڑھ ضلع بلند شہر)، نواب تفضل حسین خاں (فرخ آباد)، خان بہادر خاں (بریلی)، نواب محمود علی خاں (نجیب آباد)، مولوی لیاقت علی (الٰہ آباد)، عظیم اللہ (کانپور)، مولانا پیر علی خاں (پٹنہ)، فاضل محمد خاں، عادل محمد خاں (بھوپال)، سعادت خاں میواتی (اندور)، مولانا علاؤ الدین اور طرہی باز خاں (حیدر آباد)، نواب قادر خاں (ناگپور)وغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔

ان مجاہدین کی قربانیاں رائیگاں نہیں ہوئی،1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔

 (اس مضمون کے اکثر مواد ماخوذ ہیں ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، جمادی الاول1432ھ، ماہنامہ البینات کرچی، رمضان المبارک ، 1428ھ، ساتھ ہی کہیں کہیں نیٹ پر موجود مضامین سے  بھی استفادہ کیا گیا )

               نئے مضامین


قیمتی باتیں                      حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی