بسم اللہ الرحمن الرحیم
سحری
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ ر بَرَکَةً. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔بخاری،کتاب الصوم، باب برکة السحور، رقم: 1823 ومسلم،رقم : 1095۔ )حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”سحری کھایاکرو، کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔“(متفق علیہ)
اس لئے روزہ دار کو آخر رات میں صبحِ صادق سے پہلے پہلے سحری کھانا مسنون اور باعثِ برکت وثواب ہے۔ نصف شب کے بعد جس وقت بھی کھائیں سحری کی سنت ادا ہوجائے گی؛ لیکن بالکل آخر شب میں کھانا افضل ہے۔ اگر موٴذّن نے صبح سے پہلے اذان دے دی تو سحری کھانے کی ممانعت نہیں؛ جب تک صبح صادق نہ ہوجائے۔ سحری سے فارغ ہوکر روزہ کی نیت دل میں کرلینا کافی ہے اور زبان سے بھی یہ الفاظ کہہ لے تو اچھا ہے، بِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ، (احکام رمضان المبارک و مسائل زکوٰة)
مسائل سحری
مسئلہ:۔ سحری کھانے کا وقت صبح صادق طلوع ہونے تک ہے۔صبح صادق طلوع ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے، اگر کوئی شخص اس کے بعد ایک لقمہ یا منھ میں رکھا پانی بھی پی لے گا تو روزہ نہیں ہوگا ، اس لئے احتیاطا 10منٹ پہلے ہی سحری کھانا بند کردینا چاہیے ۔ اذان شروع ہونے تک کھاتے پیتے رہنے سے بھی روزہ نہیں ہوگا ؛کیونکہ اذان بھی صبح صادق کے طلوع ہونے کے 2یا 3 منٹ بعد ہی دی جاتی ہے جبکہ سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے ۔مسئلہ :۔ بعض لوگ رات کو ہی سحری کھا کر سو جاتے ہیں ،ایسا کرنا پسندیدہ نہیں ہے ،اس لیے کہ نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نےصبح صادق کی رعایت کرتے ہوئے سحری دیر سے کھانے کو خیر وبرکت کا باعث قرار دیا ہے ۔
مسئلہ :۔ حالت ِجنابت میں سحری کھا لینا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے؛لیکن جتنی جلدی ممکن ہو پاکی حاصل کرلینی چاہیے۔
مسئلہ :۔ بعض لوگ ’’سحری‘‘ کھانے کے لئے اُٹھتے تو ہیں مگر فجر کی نماز پڑھے بغیر ’’سحری‘‘ کھا کر سوجاتے ہیں، اس طرح رمضان میں بھی اُن کی فجر کی نماز قضاء ہوجاتی ہے۔ یاد رکھیئے! اس طرح سحری کی سنت ادا کرکے فجر کے فرضوں کو قضاء کرنا جائز نہیں ہے۔ (ماہِ رمضان کے فضائل و احکام)
مسئلہ :۔ سحری مختصر کرنی چاہیے ، زیادہ کھانے سے روزہ کا مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور پورے دن کھٹے ڈکار آتی رہتی ہے جس سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (طحطاوی، وغیرہ)
افطاری
نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہیے، افطار میں تاخیر کرنے کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خیر کے منافی اور دین کے غلبے کے خلاف قرار دیا ہے۔افطاری کی مسنون دعائیں
روزہ افطار کرنے سے قبل مسنون دعا یہ ہے:“ اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ،(ابو داوؤد )”اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دیے ہوئے رزق پرافطار کیا۔“
جب افطاری کر لے تو یہ دعا پڑھے:
”ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّت الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰہُُ“ (ابو داؤد)”پیاس چلی گئی‘رگیں تر ہوگئیں اور اجروثواب اللہ کے حکم سے قائم ہوگیا۔
افطاری میں نبوی کھانے و مشروبات
تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے، اگر تازہ کھجور نہ ملے تو پھر کھجور سے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ افطارکر لے۔ چنانچہ ابو داود، رقم:2356۔ اور ترمذی، رقم :696نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے سے پہلے تازہ کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے، اگر تازہ نہ ملتی تو کھجوروں سے روزہ افطار کرتے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چند گھونٹ پی لیتے تھے" ۔ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے تازہ کھجوروں ، یا کھجوروں یا پھر پانی سے بالترتیب روزہ افطار کرنے میں بہت ہی باریک فائدے ہیں؛ چونکہ روزہ رکھنے سے معدہ کھانے سے خالی رہتا ہے، چنانچہ جگر کو معدے میں کوئی ایسی چیز میسر نہیں آتی جسے وہ جذب کر کے اعضا کو توانائی پہنچائے، جبکہ میٹھا جگر تک سب سے زیادہ جلدی پہنچتا ہے اور جگر کے یہاں سب سے محبوب بھی ہے، خصوصاً اگر تازہ کھجور کی شکل میں ہو لہذا تازہ کھجور کو جگر فوری جذب کرتا ہے اور تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنے پر جگر کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور پورے جسم میں توانائی فوری طور پر پہنچتی ہے، اگر تازہ کھجور دستیاب نہ ہو تو پھر کھجور اس کے بعد آتی ہے؛ کیونکہ اس میں میٹھاس اور بھر پور غذائیت ہوتی ہے، اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر پانی کے گھونٹ معدے کی حرارت ختم کر دیتے ہیں، اس کے بعد معدہ کھانا ہضم کرنے کیلئے بالکل تیار ہوتا ہے۔(زاد المعاد،ج:4ص:287۔)
افطاری کے آداب ومسائل
مسئلہ:۔ افطار کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، اس لیے افطار سے چند منٹ پہلے سے ہی خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔مسئلہ:۔ اگر کسی نے سورج غروب ہونے کی غلط فہمی پر روزہ افطار کر لیا تو اس کا روزہ نہیں ہوااوراس پر اس روزہ کی قضا لازم ہے‘البتہ اس پر روزہ توڑنے کا کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔
مسئلہ:۔سحری اور افطار میں اس جگہ کا اعتبار ہوگا جہاں انسان افطاری کے وقت موجود ہے،مثلاً :اگر کوئی سعودی عرب سے روزہ رکھ کر لاہور آتا ہے تو وہ افطاری لاہور کے وقت کے مطابق کرے گا۔
مسئلہ:۔ ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے افطارکا وقت تب ہوگا جب وہاں موجود لوگوں کو سورج غروب ہوتا نظر آئے ۔زمین والے وقت کے مطابق وہ افطار نہیں کر سکتے، اس لیے کہ اتنی بلندی پر ہونے کے باعث سورج اُن کے سامنے طلوع نظر آرہاہوتاہے۔(فتاویٰ بینات،616/2 ۔)
مسئلہ:۔روزہ کے افطار کا وقت غروب آفتاب ہے اس لئے اگر یقین ہے کہ ریڈیو کی اذان غروب آفتاب کے بعد ہوئی ہے تو ریڈیو کی اذان پر روزہ افطار کرنا درست ہے چاہے محلے کی مسجد میں اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔(نجم الفتاویٰ192/2۔)
مسئلہ:۔غیر مسلموں کے یہاں روزہ افطار کرنے سے اگر یہ اندیشہ ہوکہ کل کو مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مذہبی معاملہ میں شرکت کرنی پڑے گی اور ان کے مذہبی امور میں اعانت کرنی پڑے گی، تو وہاں افطار کرنے سے مسلمان اپنے کو بازرکھیں، او راگر یہ بات نہیں ہے بلکہ غیر مسلم کا رخیر سمجھکر افطار کاانتظام کرتاہے، تو بلاکسی کراہت کے وہاں افطار کرنا جائز ہے، اور حلال ہے ۔ (فتاویٰ قاسمیہ جلد 11۔ بحوالہ مستفاد: امداد الفتاویٰ ۲/۶۶۴، فتاویٰ دارالعلوم ۶/۳۵۶، ۶/۴۹۴)
مسئلہ :۔ وقت افطار کی خبر دینے والا اگر عادل ہو یعنی متقی پرہیز گار ، دیندار تو اس کے قول پر افطار کر سکتا ہے۔ جب کہ یہ اس کی بات کو سچی مانتا ہو۔ اور اگر اس کا دل اس کی بات پر نہیںجمتا تو اس کے قول کی بنا پر افطار نہ کرے۔ یوں ہی مستور کے کہنے پر بھی افطار نہ کرے۔ (ردالمحتار وغیرہ)
اسی ملتے جلتے مضمون
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہےجدید مسائل جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے