Friday, February 10, 2017

حلال پیشے

کمپنی اور مارکٹ

بسم اللہ ا لرحمن الرحیم

(دورنبی ﷺ کے مرو جہ پیشے)


   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       اس سے قبل ایک مضمو م بنام حرام کھانا کو عاجز نے اپنے بلاگ دین اسلام سے شائع کیا تھا ،جس سے بہت سے حضرات نے استفادہ کیا اور کئی حضرات نے مشورہ دیا کہ آیندہ آپ اپنے بلاگ سے یہ بھی شائع کریں کہ ہم کس بنیاد پر جانیں کہ یہ پیشہ حلال ہے یاحرام ؟ یہ عنوان اپنے اندر اس قدر تنوع رکھتاہے کہ اس پر ایک مستقل کتاب ہوجائیگی ،چناچہ تمام کتب احادیت وفقہ میں پوری تفصیل کے ساتھ خریدو فروخت کے احکام ومسائل ذکر کیا گیا ہے ،حتیٰ کہ اس عنوان خاص پر مستقل کتابیں بھی منظر عام پر آکر تاجروں کی مکمل راہ نمائی کر رہی ہیں ،ظاہر سی بات ہے ان تمام تفصیلات کو یہاں ذکر کرنانہ تو میرے لئے ممکن ہے اورنہ قارئین کیلئے اتنی فرصت ہے کہ وہ لمبی لمبی مضامین کو پڑھیں ،پھر بھی اپنے بلاگ اور عادت کے پیش نظر اس عنوان پر مدلل اور محقق مضمون نیٹ سے شائع کرہا ہوں تاکہ دور ترقی میں جہاں مادیاتی دور بھاک کی ظلمت نے اپنی بے تاج بادشاہت کوافق عالم پرسکہ جمایا ہےوہیں یہ چھوٹا سادیا قرآن وحدیث کا پردہ ظلمت کو چاک کر نے لئے کافی ہو گا ،انشاء اللہ ،
اولاً ہم یہاں پر آپ ﷺ کے دور میں کون کون سے پیشے رائج تھے اس کا تذکر ہ بطور خاص اختصارکے ساتھ کریں گے پھر کچھ معتبر کتابوں کے یو آر ایل URL کا لنک بھی پیش کریں گے جہاں سے خرید وفروخت کے مسائل پڑھا اور حاصل کیا جاسکتا ہے ،اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کی اللہ تعالیٰ اس کے افادہ واستفادہ کو عام وتا م فر مادے،آمین

حلال ملازمت کرنا


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَاعِيَ غَنَمٍ» ، قَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَأَنَا كُنْتُ أَرْعَاهَا لِأَهْلِ مَكَّةَ بِالْقَرَارِيطِ»(ابن ماجۃ كِتَابُ التِّجَارَاتِ)
حضرت ابو ھریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تمام انبیا ء کرام ؑ نے بکریاں چرائی ہیں،آپ سے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اور آپ اے اللہ کے رسول ﷺ؟ آپنے جواب دیا کہ ہم نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چرائی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ وانا کنت ارعاھالاھل مکۃ بالقراریط ‘‘(کنز العمال حدیث نمبر9243) یعنی میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چرایا کرتاتھا،

(صنعت وحرفت)


عَن الْمِقْدَام بن معديكرب رَضِي الله عَنهُ عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ مَا أكل أحد طَعَاما قطّ خيرا من أَن يَأْكُل من عمل يَده وَإِن نَبِي الله دَاوُد عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام كَانَ يَأْكُل من عمل يَده( الترغیب والتر ھیبكتاب الْبيُوع وَغَيرهَا التَّرْغِيب فِي الِاكْتِسَاب بِالْبيعِ وَغَيره)
حضرت مقدام بن معدیکرب ؓ نبی رحمت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایااپنے ہاتھ سے کام کر کے کھانے والے سے بہتر آج تک کسی نے نہیں کھایا،اور بیشک حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کھاتے تھے ،
حلال صنعت وحرفت بھی کرنا جائز ہے ،اور ایسی کمپنی جو براہ را ست حرام چیز نہ بناتی ہو، نہ حرام کی نشر واشاعت کرتی ہو تو ایسی کمپنی کی صنعت وحرفت کرنا بھی جائز ہے ،لیکن ایسی کمپنی جو براہ راست حرام پروجیکٹ تیار کرتی ہو ،یا حرام چیز کی نشر واشاعت کرتی ہو ،اسکی صنعت وحرافت میں کام کرنا حرام ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،’’ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ‘‘ (القرآن)

(زراعت)

زراعت کرنا بھی نبی رحمت ﷺ کا مسنون عمل ہے آپ ﷺ نے بھی زراعت کی ہے ،چنانچہ مدینہ منورہ سے تھوڑی دور مقام جرف میں آپنے زراعت کی ہے ،نیز صحابہ کرام نے بھی کیا ہے ،بخاری کی حدیث ہے،
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ»(بخاری کتاب البیوع باب فضل الزرع والغرساذااکل منہ )
آپ ﷺ نے فرمایا کوئی مسلمان کوئی درخت یاکھیتی نہیں کرتا ہے کہ جس سے پرندہ یا انسان یا جانور کھالے ،مگر اس کیلئے (جانور وغیرہ کےکھانے میں) صدقہ ہے ، 

(عطر فروش کاتذکرہ)


قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ المِسْكِ وَكِيرِ الحَدَّادِ، لاَ يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ المِسْكِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ، أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ، أَوْ ثَوْبَكَ، أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً»(بخاری بابٌ فِي العَطَّارِ وَبَيْعِ المِسْكِ )
آپ ﷺ نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک والے اور لوہار کی بھٹی ہے کہ عطر فروش کے پاس یا تو تم عطر خریدوگے یا کم ازکم عطر کی خوش بو ملے گی،اور لوہا کی بھٹی یا تو تیرے بدن کے کپڑے کو جلادے گی یا تم کو اسکی بدبو لگے گی۔
(قصاب کاتذکرہ)
قسائی یعنی گوشت فروخت کرنے والا،جس کو عربی میں قصاب اور لحام بھی کہتے ہیں،یہ پیشہ بھی نبی رحمت ﷺ کے دور میں چل رہا تھا، 
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، يُكْنَى أَبَا شُعَيْبٍ، فَقَالَ لِغُلاَمٍ لَهُ قَصَّابٍ: اجْعَلْ لِي طَعَامًا يَكْفِي خَمْسَةً، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَدْعُوَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَإِنِّي قَدْ عَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الجُوعَ، فَدَعَاهُمْ، فَجَاءَ مَعَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَذَا قَدْ تَبِعَنَا، فَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ(بخاری بَابُ مَا قِيلَ فِي اللَّحَّامِ وَالجَزَّارِ)
حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ اس نے فرمایا: انصار کا ایک شخص (گھر) آیا جس کی کنیت ابو شعیب تھی،اس نے اپنے قصاب(گوشت فروخت)کرنے والے غلام سے کہا،میرے لئے اتنا کھانا بناؤ جتنا کہ پانچ آدمی کیلئے کافی ہو جائے،میں نبی رحمت ﷺ کو مع چار اشخاص کے دعوت دینا چاہتا ہوں، کیونکہ میں نے آپکے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھا ہے،(بہر کیف کھانا پکاکر)آپکو بلایا گیا،تو آپکے ساتھ ایک اور شخص (جس کو دعوت نہیں دی گئی تھی)آپ ﷺ کے ساتھ آگیا،آپ ﷺ نے دعوت دینے والے سے فرمایا کہ یہ شخص میرے ساتھ آگیا ہے اگر تم چاہو تو کھانے کی اجازت دے دو (ورنہ وہ واپس چلاجائیگا)اس صحابی نے اس کو کھانے کی اجازت دیدی۔
مسئلہ : گوشت کی تجارت جائز ہے ،اگر گوشت کو گو شت کے بدلہ بیچاجائے تو برابر بیچنا ضروری ہے ورنہ سود ہو جائیگا،ہاں ایک جنس کے جانور کا گوشت دوسرے جنس کے جانور کے گو شت سے بیچنے میں کمی زیادتی جا ئز ہے ۔مثلا بیل کے گوشت کو بکری کے گوشت سے بیچا جائے تو تفاضل جائزہے ۔
مسئلہ :۔کھانے کیلئے صرف اور صرف حلال جانور کے گوشت ہی کاخریدنا اور بیچناجائز ہے باقی دوسرے کاموں کیلئے مثلا : دوا وغیرہ کیلئے نجس العین جانور کے علاوہ تمام جانور کا گوشت خریدا اور بیچا جا سکتا ہے ۔ کل ماینتفع بہ فجائز بیعہ والاجارۃ علیہ ( القواعد الفقھیہ ۵ /۱۲۸)
(جانور کی خریداری کاتذکرہ)
جانور کی خرید وفروخت کرنا جائز ہے ،آپ ﷺ نے خود جانور کی خرید وفروخت کی ہے اور صحابہ کرام نے بھی اس عمل سے معاش طلب کیا ہے ،

مسئلہ :۔ جانور نہ تو عددی ہے اور نہ کیلی اس لئے اس میں تفاضل جائز ہے یعنی ایک جا نور کے بدلہ دو جانور خرید نا یا بیچنا جائز ہے ،ہاں ایک جنس کے جانورکا اسی جنس کے جانور سے بیچا جائے توتفاضل جائز توہے لیکن ادھا ر بیچنا جائز نہیں ہے ،مثلا: ایک بکری دو بکری کے بدلہ بیچاجائے تو نقد میں جائز ہو گا اور ادھار بیچنا جائز نہیں ہو گا ،آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے جانور کو جانور کے بدلہ بیچتے وقت ادھار سے منع فرمایا،( ترمذی کتاب البیوع )

(لوہار اور سونار کا تذکرہ)


عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: كُنْتُ قَيْنًا فِي الجَاهِلِيَّةِ،الاخ (بخاری بَابُ ذِكْرِ القَيْنِ وَالحَدَّادِ)
حضرت خبابؓ فرماتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے قبل لوہار کا کام کیا کرتاتھا،

ٹیلر اور درزی کا تذکرہ


أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا وَمَرَقًا، فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ القَصْعَةِ»، قَالَ: «فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمِئِذٍ» (بخاری کتاب البیوع بَابُ ذِكْرِ الخَيَّاطِ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور نبی کریم ﷺ کے لئے کھا نا تیار کیا اور دعوت دی۔میں بھی ساتھ تھا۔اُس درزی نے جو کی روٹی اور شوربا پیش خدمت کیا،جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے۔میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو تلاش فرما کر تناول فرما رہے تھے۔میں اس روز کے بعد ہمیشہ کدو کو پسند کرنے لگا۔

(کپڑا بنا)


سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ بِبُرْدَةٍ، قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا البُرْدَةُ؟ فَقِيلَ لَهُ: نَعَمْ، هِيَ الشَّمْلَةُ مَنْسُوجٌ فِي حَاشِيَتِهَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي أَكْسُوكَهَا، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا،الاخ(بخاری ،بَابُ ذِكْرِ النَّسَّاجِ)
حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت آپ ﷺ کی خدمت ایک چادر لیکر آئی،حضرت سہل نے اپنے شاگرد سے دریافت کیا تم جانت ہو بردہ کس کو کہتے ہیں،اس نے کہا،ہاں! میں جانتاہوں بردہ وہ ہوچادر ہو تا ہے جس میں کنارے کنارے پھول بوٹے بنے ہوتے ہیں،اس عورت نے کہایا رسول اللہ میں یہ چادر اپنے ہاتھ سے آپ کیلئے بن کر لائی ہوں،تو آپ ﷺ نے اس چادر کو اس انداز سے قبول فرمالیا گویا آپکو چادر کی ضرورت ہے،الاخ

(بڑھی کاتذکرہ)


عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: أَتَى رِجَالٌ إِلَى سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ يَسْأَلُونَهُ عَنِ المِنْبَرِ، فَقَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فُلاَنَةَ، امْرَأَةٍ قَدْ سَمَّاهَا سَهْلٌ: «أَنْ مُرِي غُلاَمَكِ النَّجَّارَ، يَعْمَلُ لِي أَعْوَادًا، أَجْلِسُ عَلَيْهِنَّ إِذَا كَلَّمْتُ النَّاسَ»، فَأَمَرَتْهُ يَعْمَلُهَا مِنْ طَرْفَاءِ الغَابَةِ،الاخ (بخاری بَابُ النَّجَّارِ)
ابو حازم سے روایت ہے،کہ چند حضرات حضرت سہل بن سعد کی خدمت میں تشریف لاکر نبی رحمت ﷺ کے منبر کے متعلق دریافت کرنے لگا تو حضرت سہل نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے فلان عورت کے پاس پیغام بھیجاتھا،حضرت سہل نے اس خاتون کا نام لیاتھا (مگر نام بھول جانے کی وجہ سے راوی نے فلانہ کا نام نہیں ذکر کیا)اس خاتون کے پاس آپ ﷺ نے یہ پیغام بھیجا کہ تم اپنے بڑھی غلام کو کہو کہ وہ لکڑی پر اس طرح کام کرے کہ میں لوگوں سے بات کرتے وقت اس پر بیٹھ سکوں،اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس کو غابہ نامی جنگل کی لکڑی سے بنادے، الاخ
عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «كَانَ زَكَرِيَّا نَجَّارًا»(ابن ماجۃ كِتَابُ التِّجَارَاتِ)
ابورافع نے ابو ھریرہ سے رویت کیا ے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت زکریاؑ بڑھی کا کام کیا کرتے 
(حجامت لگانے والے کاتذکر)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَأَمَرَ  لَهُ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا مِنْ خَرَاجِهِ»(بخاری بَابُ ذِكْرِ الحَجَّامِ)
حجرت انس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ابوطیبہ نے رسول اللہ ﷺ کا پچھنا لگا یا،تو آپ ﷺ نے مزدوری میں ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا،اوراس مالک کو کہا کہ تم اس سےخراج کو کم کر دو،

(خرید وفروخت کا ایک اہم اصول) 

جس شی کا کوئی جائز استعمال ممکن ہوخواہ مرد کے لئے یا عورت کیلئے تو اسکی بیع جائز ہے ،باقی خرید نے والے پر ہے کہ وہ کس کام کیلئے خرید رہا ہے ،اگر وہ حرام وناجائز کام کیلئے خرید رہا ہے تو اس کاگناہ خرید نے والے کو ہوگا ،مثلا: افیون ہی کو لے لیں اسکا استعمال عموماً نشہ ہی کیلئے ہو تا ہے ،لیکن اسکا جائز استعمال بھی ممکن ہے ،مثلا ،دوامیں ،بیرونی علاج میں لیپ وغیرہ کیلئے ،لہذا کوئی اس نیت سے افیون کی بیع کرتا ہے تو جائز ہے ،ہاں اگر یقیناً معلوم ہو جائے کہ یہ خریدارنشہ ہی میں استعمال کریگا تو پھر اس کے ساتھ بیچنا ناجائز ہوگا ، (کلہ من انعام الباری جلد نمبر ۶ ، و ماخوذ من جواہر الفقہ ۶/۴۵۷) 

ا س سےملتے جلتے عمدہ اور مدلل مضمون

ملک بھارت کے سلگتے مسائل


Wednesday, January 25, 2017

الکحل والی دواکا استعمال

Image result for AlcoholImage result for Alcohol



بسم اللہ الرحمن الرحیم 



-----------------------------------------------------------
دراصل یہ مضمون حضرت مولانا ابرار صاحب قاسمی دامت بر کاتھم کی ہے ،مولانانے اس اہم مضمون کو اپنے واٹس ایپ پر شائع کیا تھا ،اور واٹس ایپ پراپلوڈ مضمون کی حیات بہت ہی کم ہوتی  ہے ،نیز اس سے استفادہ بھی محدود حضرات ہی کر سکتے ہیں، اسلئے مولانا ہی کی اجازت سے افادہ عام کے پیش نظر اضافہ یسیر کے ساتھ اپنے بلاگ کی مدد سے شائع کر رہا ہوں،اللہ تعالیٰ اس کے افادہ و استفادہ کو عام تام فر مائے آمین ،
-------------------------------------------------------------
کیا الکحل والی دواؤں یا پرفیوم میں کا استعمال کرنا جائز ہے؟

?Alcohol is permissible in medicine or perfume

  الکحل (Alcohol) ایک Chemical Composition یعنی ایک فارمولہ ہے جو ہیدروکسل Hydroxyl (-OH) سے بنتا ہے، جس میں نشہ ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شراب (جس کو عربی میں خمر اور انگریزی میں Wine کہتے ہیں) کا پینا حرام ہے خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے شراب عموماً بعض چیزوں مثلاً انگور کو سڑاکر بنائی جاتی تھی جس کو دیسی شراب کہتے ہیں۔ اب نئی ٹکنولوجی کے ذریعہ بھی شراب تیار ہوتی ہے، جس کو انگریزی شراب کہتے ہیں۔ لیکن شرعی اعتبار سے دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ ہر وہ چیز جو نشہ پیدا کرے اس کا پینا یا اس کا کاروبار کرنا یا ایسی کمپنی کا شی خریدنا یا اس میں ملازمت کرنا جو شراب بناتی ہیں، سب حرام ہے۔ بعض حضرات جو شراب پینے کے عادی بن جاتے ہیں اُن کو تھوڑی مقدار میں شراب نشہ نہیں کرتی، اس کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے وضاحت کی ہے کہ اگر کوئی شخص پہلی مرتبہ کوئی چیز پئے اور اس سے نشہ ہو تو وہ  شراب کے حکم میں ہے۔
شراب پینے کے بعض فوائد ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر شراب پینے میں نقصانات بہت زیادہ ہیں، جیساکہ ہم اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کے احوال دیکھتے ہیں جو شراب پینے کے عادی بن جاتے ہیں۔ نیز جس ذات نے انس وجن اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے، اس نے شراب پینے سے تمام انسانوں کو منع کیا ہے، یعنی شراب پینے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ نیز شراب پینا انسان کو ہلاک کرنے والے سات بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔

الکحل ملی دواؤں کا حکم

اب بعض انگریزی دواؤں خاص کر Life Saving Drugs میں دواؤں کی حفاظت یا بعض بیماریوں کے علاج کے لئے نئی ٹکنولوجی کے ذریعہ تیار کردہ الکحل (Alcohol) ملایا جاتا ہے، مثلاً سانس کی زیادہ تر دواؤں میں الکحل ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی (Homeopathy) کی اکثر دواؤں میں بھی الکحل کا استعمال ہوتا ہے، جو پینے والی شراب سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح پرفیوم (Perfume ) میں بھی الکحل کا استعمال ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی دوائیں (Medicines) یا پرفیوم (Perfume) جن میں میں الکحل (Alcohol) ہوتا ہے، کیا ان کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ اگر ایسی دواؤں سے بچنا ممکن ہے جن میں الکحل ہے یعنی ان کا متبادل مارکیٹ میں موجود ہے تو استعمال نہ کریں، ورنہ ایسی دوائیں استعمال کی جاسکتی ہیں جن میں الکحل (Alcohol) موجود ہے، کیونکہ وہ مقدار میں بہت ہی کم ہوتا ہے، اور وہ پینے والے الکحل سے تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے جیساکہ ماہرین سے معلوم کیا گیا، نیز اُس کا پینا مقصود نہیں ہوتا اور نہ ہی ان سے نشہ آتا ہے۔ اسی طرح وہ الکحل (Alcohol) والی دوائیں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں جو بدن کی صفائی وغیرہ کے لئے استعمال کی جاتی ہیں مثلاً انجکشن لگانے سے قبل اور بعد میں، نیز خون نکالنے سے قبل یا بعد میں، جو سیکنڈوں میں اڑ جاتا ہے۔
(وَأَمَّا مَا هُوَ حَلَالٌ عِنْدَ عَامَّةِ الْعُلَمَاءِ) فَهُوَ الطِّلَاءُ، وَهُوَ الْمُثَلَّثُ وَنَبِيذُ التَّمْرِ وَالزَّبِيبُ فَهُوَ حَلَالٌ شُرْبُهُ مَا دُونَ السَّكَرِ لِاسْتِمْرَاءِ الطَّعَامِ وَالتَّدَاوِي وَلِلتَّقْوَى عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ تَعَالَى لَا لِلتَّلَهِّي وَالْمُسْكِرُ مِنْهُ حَرَامٌ، وَهُوَ الْقَدْرُ الَّذِي يُسْكِرُ، وَهُوَ قَوْلُ الْعَامَّةِ،(الفتاویٰ الھندیہ ،كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ،الْبَاب الْأَوَّل فِي تَفْسِير الْأَشْرِبَة وَالْأَعْيَان الَّتِي تَتَّخِذ مِنْهَا الْأَشْرِبَة)

(ہومیو پیت دواؤں کا استعمال)

ہومیوپیتھی (Homeopathy) کی اکثر دواؤں کی استقامت اور اس کی حفاظت کے لئے بھی الکحل (Alcohol) کا استعمال ہوتا ہے، لیکن وہ مقدار میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی دوائیں چند قطروں پر ہی مشتمل ہوتی ہے جو چینی، پانی اور دودھ سے بنے Pills میں ڈالی جاتی ہے ۔ اُن چند قطروں میں بہت معمولی مقدار میں وہ الکحل (Alcohol) ہوتا ہے جو پینے والے الکحل سے بہت زیادہ ہلکا ہوتا ہے، جیسا کہ ماہرین سے معلوم کیا گیا۔ اس لئے علماء کرام نے کہا کہ ہومیوپیتھی دوائیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
(حوالہ بالا کے ساتھ دیکھیں احسن الفتاویٰ۸: ۴۸۸،احسن الفتاویٰ میں علامہ شبلی ،علامہ شامی ابن عابدین ،علامہ گنگوہی اورفتاویٰ عالمگیری کے حوالے سے مفصل کلام کیا گیا ہے )

پرفیوم (Perfume)

رہا معاملہ پرفیوم (Perfume) کا، تو پرفیوم کے استعمال سے بچنا ممکن ہے،لہٰذا ایسے پرفیوم کے استعمال سے بچنا ہی بہتر ہے جن میں نئی ٹکنولوجی کے ذریعہ تیار کردہ الکحل (Alcohol) ہوتا ہے، کیونکہ بغیر الکحل والے عطر بڑی مقدار میں آسانی سے ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ہاں علماء نے تحریر کیا ہے کہ پرفیوم (Perfume) میں استعمال ہونے والے الکحل، جو Hydroxyl (-OH) سے بنتا ہے، کی حرمت واضح طور پر قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے، علماء کرام کا اجتہاد ہے، نیز الکحل والے پرفیوم (Perfume) کا استعمال بہت عام ہوگیا ہے جسے عموم بلوا کہا جاتا ہے، لہٰذا الکحل والے پرفیوم (Perfume) کا استعمال کرنا حرام تو نہیں ہے، لیکن بچا جائے تو بہتر ہے.
(فتاویٰ النوزل 16: 153،اور دیکھیں مکمل تفصیل کتاب الفتاویٰ جلد نمبر 6)

اس سلسلے میں مزید تفصیلی کلام پڑھنے کیلئے نیچے لنک پر کلک کریں
پتنجلی کی چیزیں حرام ہیں