Monday, October 24, 2016

jannat ka amal

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(ایک مختصر عمل پر جنت)

    آپ ﷺنے فرمایا کہ جس نے چالس احادیث یاد کی وہ جنت میں داخل ہوگا،چنا نچہ بے شمار محدثین کرام نے چہل حدیث لکھی ہے۔ ہم بھی ہاں چہل حدیث نقل کرتے ہے، جو نہایت ہی مختصر ہے،؛لیکن مہماتِ دینیہ کو ایسی جامع ہے کہ اسکی نظیر ملنا مشکل ہے،جسکو حضرت شیخ زکریاؒ نے فضائل قرآن مجید کے آخرمیں حافظ ابوالقاسم بن عبدالرحمن بن محمد بن اسحاق بن مندہ اور حافظ ابوالحسن علی بن ابوالقاسم بن بابویہ رازی کے حوالہ سے نقل کیا ہے، اورمولانا قطب الدین صاحب مہاجر نے بھی اسکو ذکر کیا ہے۔

(حدیث یہ ہے)

حضرت سلمانؓ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ وہ چالس حدیثیں جن کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو انکو یادکریگا وہ جنت میں داخل ہوگا، وہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ یہ ہے۔۱؂ اللہ پر ایمان لاوے ۲؂ اور آخرت کے دن پر ۳؂ اور فرشتوں پر ۴؂ اور تمام آسمانی کتابوں پر ۵؂ اور تمام انبیاء  کرام پر ۶؂ اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ۷؂ اوراچھی بری تقدیر پر کہ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوئے ہیں ۸؂اور گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کو ئی معبود نہیں اورمحمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۹؂ اور ہر نماز کے وقت اچھی طرح کامل وضوکر کے نماز قا ئم کرے ۱۰؂ اور زکوٰۃ ادا کرے ۱۱؂ رمضان کے روزے رکھے ۱۲؂ اور اگر استطاعت ہو توحج کرے ۱۳؂ اور روزانہ بارہ رکعت سنتِ مؤکدہ ادا کرے ۱۴؂ اور تمام راتیں وتر پڑھے یعنی کبھی بھی وتر نہ چھوڑے ۱۵؂ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۱۶؂ اور والدین کی نافرمانی نہ کرے ۱۷؂ اور ظلم سے یتیم کامال نہ کھاوے ۱۸؂ شراب نہ پیئے۱۹؂ اور زنا نہ کرے ۲۰؂ اور جھوٹی قسم نہ کھاوے ۲۱؂ جھوٹی گواہی نہ دے ۲۲؂ خواہشات پر عمل نہ کرے ۲۳؂ مسلمان بھا ئی کی غیبت نہ کرے ۲۴؂ پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگائے ۲۵؂ اپنے مسلمان بھا ئی سے کینہ نہ رکھے ۲۶؂ لہوولعب میں مشغول نہ ہو ۲۷؂ تماشا ئیوں میں شرکت نہ ہو ۲۸؂ کسی پستہ قدکو عیب کی نیت سے ٹھنگنا مت کہو ۲۹؂ کسی کا مزاق مت اڑاؤ ۳۰؂ مسلمانوں کے درمیان چغل خوری مت کرو۳۱؂ اور ہر حال میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے ۳۲؂ بلا اور مصیبت پر صبر کرو ۳۳؂ اللہ کے عذاب سے بے خوف مت ہو ۳۴؂ رشتہ داروں سے قطع تعلق مت کرو ۳۵؂ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔۳۶؂ اللہ کی کسی مخلوق پر لعنت مت کرو ۳۷؂ سبحان اللہ، اللہ اکبراور لاالہ الاّاللہ کثرت سے پڑھاکرو ۳۸؂ جمعہ اور عیدین میں غیرحاضر مت رہو ۳۹؂ اور اس بات کا یقین رکھ کہ جو کچھ تکلیف و راحت تم کو پہونچی وہ مقدر میں تھی اور جو نہیں پہونچی وہ مقدر نہیں تھی ۴۰؂ اور تلاوتِ قرآن کسی حال میں مت چھوڑو۔

(کلھا من فضائل قرآن لشیخ زکریارحمۃاللہ علیہ)*********

Sunday, September 4, 2016

قربانی کے مسائل


قربانی کے مسائل

مسئلہ 1: جس شخص پر صدقۃ الفطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے، یعنی قربانی کے تین ایام (۱۰۔۱۱۔۱۲؍ذی الحجہ) کے دوران اپنی ضرورت سے زائد اتنا حلال مال یا اشیاء جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت 612 گرام360 ملی گرام چاندی کے برابر ہو تو اس پر قربانی لازم ہے، مثلاً رہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان ہو، خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، اسی طرح ضروری سواری کے طور پر استعمال ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔

مسئلہ 2: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ سے بارہویں تاریخ کی شام تک ہے ،بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور دن کو ذبح کرنا افضل ہے اگر چہ رات کو بھی ذبح کرسکتے ہیں لیکن افضل بقر عید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
مسئلہ 3: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے، اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔
بعض لوگ قصاب سے ذبح کراتے وقت ابتداء میں خود بھی چھری پر ہاتھ رکھ لیا کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی والے دونوں مستقل طور پر تکبیر پڑھیں، اگر دونوں میں سے ایک نے تکبیر نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (شامی ۶؍۳۳)
مسئلہ 4: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اسے قبلہ رخ لٹائیں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں: اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔ اس کے بعد ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر قربانی کا جانور ذبح کریں۔ (سنن ابو داؤد)
ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھیں: ’’اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیِْبَک مُحَمَّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ‘‘۔اگر دوسرے کی جانب سے قربانی کر رہا ہو تو منی کی اس شخص کا نام لے
مسئلہ 5: قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کی طرف سے نہیں،اولاد چاہے بالغ ہو یا نابالغ ،مال دار ہو یا غیر مالدار۔
مسئلہ 6: درج ذیل جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے ،اونٹ ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا۔
بکرا، بکری، بھیڑ اور دنبے کے علاوہ جانوروں میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں، مگرشرط یہ ہے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یا کسی ایسی عبادت کی نیت سے شریک ہوں جس میں جانور ذبح کرنا مشروع ہو ،مثلاً عقیقہ کی نیت سے ، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔
اگر کئی افراد مل کر ایک حصہ ایصال ثواب کے طور پر کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے، البتہ ضروری ہے کہ سارے شرکاء اپنی اپنی رقم جمع کرکے ایک شریک کوہبہ کردیں اور وہ اپنی طرف سے قربانی کردے اس طرح قربانی کا حصہ ایک کی طرف سے ہوجائے گا اور ثواب سب کو ملے گا۔
مسئلہ 7: اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگرخریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی، بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے اور اس نے قربانی کے ایام میں وہ جانور خریدا ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر مال دار ہے تو شریک کرسکتا ہے، البتہ بہتر نہیں،یہی حکم اس غریب کا بھی ہے جس نے ایام قربانی سے قبل جانور خریدا ہو۔
مسئلہ 8: قربانی کا جانور گم ہوگیا، اس کے بعد دوسرا خریدا، اگر قربانی کرنے والا امیر ہے، تو ان دونوں جانوروں میں سے جسے چاہے ذبح کرے، جب کہ غریب پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی،بشرطیکہ خریداری ایام اضحیہ میں ہوئی ہو، اگر ایام اضحیہ سے قبل غریب نے خریدا تو صرف ایک کی قربانی واجب ہوگی۔
مسئلہ 9: قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکاء ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کریں۔اندزے سے کمی زیادتی کے ساتھ تقسیم کرنا سود ہوگا ۔
مسئلہ: بھیڑ، بکری جب ایک سال کی ہوجائے ، گائے، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا تو اس کی قربانی جائز ہے، اگر اس سے کم ہے تو جائز نہیں۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ چھ مہینہ کا(نہ کہ بکرا) اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
مسئلہ 10: اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اور دانت نہ نکلے ہوں تو بھی قربانی ہوسکتی ہے تاہم اس سلسلے میں صرف جانوروں کے عام سوداگروں کی بات معتبر نہیں ہے، بلکہ یقین سے معلوم ہونا ضروری ہے یا یہ کہ خود گھر میں پالا ہوا جانور ہو تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔اگر مذکورہ مدت میں ایک دن کی بھی کمی ہو گی تو قربانی جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ 11: جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
مسئلہ 12: اگر قربانی کے جانور میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوا جس کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو تو مال دار شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرا جانور اس کے بدلے خرید کر قربانی کرے، غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی کرسکتا ہے، اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے گراتے ہوئے کوئی عیب پیدا ہوجائے، مثلاً ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑے گا، البتہ جانور کو گراتے وقت احتیاط کرنا چاہئے۔
مسئلہ 13:قربانی کے گوشت میں بہتر یہ ہے کہ تین حصے کرے، ایک حصہ اپنے لیے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دے اور ایک حصہ فقراء و مساکین کو دے، لیکن اگر سارے کا سارا اپنے لیے رکھے تب بھی جائز ہے۔
مسئلہ 14: بہتر ہے کہ قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طور پر دے یا فروخت کرکے اس کی قیمت فقراء کو دے، البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسے اور جامعہ کو دے دے تو سب سے بہتر ہے کیونکہ علم دین کا احیاء سب سے بہتر ہے۔
مسئلہ 15: قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں بھی لایا جاسکتا ہے، اس طور پر کہ اس کا عین باقی رہے، مصلیٰ بنائے یا رسی یا چھلنی بنائے تو درست ہے،البتہ اسے بیچ کر اس کی قیمت کو اپنے مصرف میں نہیں لاسکتا۔
مسئلہ 16: قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مرمت یا امام و مؤذن یا مدرس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی نہ اس سے مدارس کی تعمیر ہوسکتی ہے، اور نہ شفاخانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
مسئلہ 17: قربانی کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں، اگر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی یا چھن گئی تو اسے چاہیے کہ وہ کھال کی رقم صدقہ کردے اگر استطاعت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں، قربانی پر فرق نہیں پڑے گا۔
مسئلہ 18: اگر قربانی کے تین دن گزرگئے اور صاحب نصاب شخص نے قربانی نہیں کی تو اب ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے اور اگر جانور خریدا تھا مگر قربانی نہیں کی تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
مسئلہ 19: ایصال ثواب کے لیے کی گئی قربانی کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاسکتا ہے۔
مسئلہ 20: اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم و اجازت کے بغیر قربانی میں شریک کیا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر حصے داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
مسئلہ 21:قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتا ہے البتہ کسی کو اجرت میں نہیں دے سکتا۔
مسئلہ 22:گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے اور اگر بچہ زندہ نکلے تو اسے بھی ذبح کردے اور اس کاگوشت آپس میں تقسیم کرنے کی بجائے صدقہ کردیا جائے۔
مسئلہ:قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے صدقہ کرے، اگر بیچ دیا تو اس کی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔ (بدائع ۵؍۷۸)
مسئلہ 23: مستحب یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ناخن۔ البتہ اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا واجب ہے۔
مسئلہ 24:قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھ سکتا ہے۔ (سنن ابوداؤد)
مسئلہ 25: جانورذبح کرنے کے لیے چھری خوب تیز ہونی چاہئے تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ 
مسئلہ 26: خصی جانور کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے کیونکہ اس میں غیر خصی کی بہ نسبت گوشت زیادہ بہتر و عمدہ ہوتا ہے۔
مسئلہ 27: اگر کسی شخص کی ساری یا اکثر آمدنی حرام کی ہو تو اسے اپنے ساتھ قربانی میں شریک نہیں کرنا چاہئے، اگر شریک کیا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
مسئلہ 28: بکری کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں تمام شرکاء اپنا اپنا حصہ تقسیم کئے بغیر سب کی رضا مندی سے فقراء کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
مسئلہ 29: کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو اس قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
مسئلہ 30:اگر قربانی کرنے کی نذر کی ہو تو اس میں سے نذر کرنے والا کچھ بھی استعمال نہیں کر سکتاہے 

قربانی کے مسائل


قربانی کے مسائل

مسئلہ 1: جس شخص پر صدقۃ الفطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے، یعنی قربانی کے تین ایام (۱۰۔۱۱۔۱۲؍ذی الحجہ) کے دوران اپنی ضرورت سے زائد اتنا حلال مال یا اشیاء جمع ہوجائیں کہ جن کی مالیت 612 گرام360 ملی گرام چاندی کے برابر ہو تو اس پر قربانی لازم ہے، مثلاً رہائشی مکان کے علاوہ کوئی مکان ہو، خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، اسی طرح ضروری سواری کے طور پر استعمال ہونے والی گاڑی کے علاوہ گاڑی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی لازم ہے۔

مسئلہ 2: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ سے بارہویں تاریخ کی شام تک ہے ،بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد درست نہیں۔ قربانی کا جانور دن کو ذبح کرنا افضل ہے اگر چہ رات کو بھی ذبح کرسکتے ہیں لیکن افضل بقر عید کا دن پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
مسئلہ 3: قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے، اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔
بعض لوگ قصاب سے ذبح کراتے وقت ابتداء میں خود بھی چھری پر ہاتھ رکھ لیا کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی والے دونوں مستقل طور پر تکبیر پڑھیں، اگر دونوں میں سے ایک نے تکبیر نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (شامی ۶؍۳۳)
مسئلہ 4: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اسے قبلہ رخ لٹائیں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں: اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔ اس کے بعد ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر قربانی کا جانور ذبح کریں۔ (سنن ابو داؤد)
ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھیں: ’’اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیِْبَک مُحَمَّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ‘‘۔اگر دوسرے کی جانب سے قربانی کر رہا ہو تو منی کی اس شخص کا نام لے
مسئلہ 5: قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کی طرف سے نہیں،اولاد چاہے بالغ ہو یا نابالغ ،مال دار ہو یا غیر مالدار۔
مسئلہ 6: درج ذیل جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے ،اونٹ ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا۔
بکرا، بکری، بھیڑ اور دنبے کے علاوہ جانوروں میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں، مگرشرط یہ ہے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یا کسی ایسی عبادت کی نیت سے شریک ہوں جس میں جانور ذبح کرنا مشروع ہو ،مثلاً عقیقہ کی نیت سے ، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔
اگر کئی افراد مل کر ایک حصہ ایصال ثواب کے طور پر کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے، البتہ ضروری ہے کہ سارے شرکاء اپنی اپنی رقم جمع کرکے ایک شریک کوہبہ کردیں اور وہ اپنی طرف سے قربانی کردے اس طرح قربانی کا حصہ ایک کی طرف سے ہوجائے گا اور ثواب سب کو ملے گا۔
مسئلہ 7: اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگرخریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی، بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے اور اس نے قربانی کے ایام میں وہ جانور خریدا ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر مال دار ہے تو شریک کرسکتا ہے، البتہ بہتر نہیں،یہی حکم اس غریب کا بھی ہے جس نے ایام قربانی سے قبل جانور خریدا ہو۔
مسئلہ 8: قربانی کا جانور گم ہوگیا، اس کے بعد دوسرا خریدا، اگر قربانی کرنے والا امیر ہے، تو ان دونوں جانوروں میں سے جسے چاہے ذبح کرے، جب کہ غریب پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی،بشرطیکہ خریداری ایام اضحیہ میں ہوئی ہو، اگر ایام اضحیہ سے قبل غریب نے خریدا تو صرف ایک کی قربانی واجب ہوگی۔
مسئلہ 9: قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکاء ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کریں۔اندزے سے کمی زیادتی کے ساتھ تقسیم کرنا سود ہوگا ۔
مسئلہ: بھیڑ، بکری جب ایک سال کی ہوجائے ، گائے، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا تو اس کی قربانی جائز ہے، اگر اس سے کم ہے تو جائز نہیں۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ چھ مہینہ کا(نہ کہ بکرا) اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
مسئلہ 10: اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اور دانت نہ نکلے ہوں تو بھی قربانی ہوسکتی ہے تاہم اس سلسلے میں صرف جانوروں کے عام سوداگروں کی بات معتبر نہیں ہے، بلکہ یقین سے معلوم ہونا ضروری ہے یا یہ کہ خود گھر میں پالا ہوا جانور ہو تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔اگر مذکورہ مدت میں ایک دن کی بھی کمی ہو گی تو قربانی جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ 11: جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
مسئلہ 12: اگر قربانی کے جانور میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوا جس کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو تو مال دار شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرا جانور اس کے بدلے خرید کر قربانی کرے، غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی کرسکتا ہے، اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے گراتے ہوئے کوئی عیب پیدا ہوجائے، مثلاً ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑے گا، البتہ جانور کو گراتے وقت احتیاط کرنا چاہئے۔
مسئلہ 13:قربانی کے گوشت میں بہتر یہ ہے کہ تین حصے کرے، ایک حصہ اپنے لیے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دے اور ایک حصہ فقراء و مساکین کو دے، لیکن اگر سارے کا سارا اپنے لیے رکھے تب بھی جائز ہے۔
مسئلہ 14: بہتر ہے کہ قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طور پر دے یا فروخت کرکے اس کی قیمت فقراء کو دے، البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسے اور جامعہ کو دے دے تو سب سے بہتر ہے کیونکہ علم دین کا احیاء سب سے بہتر ہے۔
مسئلہ 15: قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں بھی لایا جاسکتا ہے، اس طور پر کہ اس کا عین باقی رہے، مصلیٰ بنائے یا رسی یا چھلنی بنائے تو درست ہے،البتہ اسے بیچ کر اس کی قیمت کو اپنے مصرف میں نہیں لاسکتا۔
مسئلہ 16: قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مرمت یا امام و مؤذن یا مدرس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی نہ اس سے مدارس کی تعمیر ہوسکتی ہے، اور نہ شفاخانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
مسئلہ 17: قربانی کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں، اگر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی یا چھن گئی تو اسے چاہیے کہ وہ کھال کی رقم صدقہ کردے اگر استطاعت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں، قربانی پر فرق نہیں پڑے گا۔
مسئلہ 18: اگر قربانی کے تین دن گزرگئے اور صاحب نصاب شخص نے قربانی نہیں کی تو اب ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے اور اگر جانور خریدا تھا مگر قربانی نہیں کی تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
مسئلہ 19: ایصال ثواب کے لیے کی گئی قربانی کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاسکتا ہے۔
مسئلہ 20: اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم و اجازت کے بغیر قربانی میں شریک کیا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر حصے داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
مسئلہ 21:قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتا ہے البتہ کسی کو اجرت میں نہیں دے سکتا۔
مسئلہ 22:گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے اور اگر بچہ زندہ نکلے تو اسے بھی ذبح کردے اور اس کاگوشت آپس میں تقسیم کرنے کی بجائے صدقہ کردیا جائے۔
مسئلہ:قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے صدقہ کرے، اگر بیچ دیا تو اس کی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔ (بدائع ۵؍۷۸)
مسئلہ 23: مستحب یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ناخن۔ البتہ اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا واجب ہے۔
مسئلہ 24:قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھ سکتا ہے۔ (سنن ابوداؤد)
مسئلہ 25: جانورذبح کرنے کے لیے چھری خوب تیز ہونی چاہئے تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ 
مسئلہ 26: خصی جانور کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے کیونکہ اس میں غیر خصی کی بہ نسبت گوشت زیادہ بہتر و عمدہ ہوتا ہے۔
مسئلہ 27: اگر کسی شخص کی ساری یا اکثر آمدنی حرام کی ہو تو اسے اپنے ساتھ قربانی میں شریک نہیں کرنا چاہئے، اگر شریک کیا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
مسئلہ 28: بکری کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں تمام شرکاء اپنا اپنا حصہ تقسیم کئے بغیر سب کی رضا مندی سے فقراء کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
مسئلہ 29: کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو اس قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
مسئلہ 30:اگر قربانی کرنے کی نذر کی ہو تو اس میں سے نذر کرنے والا کچھ بھی استعمال نہیں کر سکتاہے