![]() |
واقعہ کربلا اور شہادت حسین |
﷽
واقعہ کربلا
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید ولی عہد کے پیش نظر امیر بنا،چونکہ یزیدبن معاویہ کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں ، اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی امارت کو ماننے سے انکار کردیا۔
بالآخر یزید نے تخت نشین ہوا ،اور حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو
حکم دیا کہ وہ حضرت
حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کریں مگر ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بیعت لینے کے لیے
مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ چلے گئے ، اورجب آپ وہاں پہونچے تو پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر
کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں ،آپ
نے حضرت عبد اللہ بن زبیر
وغیرہ سے مشورہ کیا سب نے آپ کو جانے سے منع کردیا ، ادھر اہل کوفہ کی جانب سے
مسلسل خطوط آتے رہے اور اللہ کا واسطہ دیکر آپ کی مدد کرنے کا وعدہ کرتے رہے ،
بالآ خر حضرت
عبد اللہ بن زبیر
وغیرہ نے آپ کو کہا اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو پہلےکوفہ ایک قاصد بھیج کر وہاں کی
سورت حال سے آگاہ ہوجائیں اگر وہاں کی حالت خوشگوار رہے تو چلے جائیں ورنہ آپ یہیں
رکے رہیں ۔جب قاصد نےاطلاع دی کہ یہاں کے احوال بہت بہتر ہے ، آپ تشریف لے آئیں ان
لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی شروع کردی ہے ، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل
بیت کے ہمراہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے ۔
اِدھرعبیداللہ
بن زیاد نے عمروبن سعد بن ابی وقاص کو،،رے،، کی حکومت پرنامزد کیا اور فی الحال
چار ہزار فوج دیکر حضرت حسین کی نگرانی اور کھوج پرمامور کیا کہ وہ کس طرف سے آرہے
ہیں اور کہاں ہیں اور ایک ہزار آدمی حربن یزید تمیمی کے سپرد کرکے اس کوبھی گشت
وگرداوری پرمامور کیا، عمروبن سعد مقام قادسیہ میں ہوکر ہرسمت کی خبریں منگانے کا
انتظام کرنے لگے، حضرت امام حسین رضی اللہ جب مقام شراف سے آگے بڑھے توحربن یزید
تمیمی اپنی ایک ہزار فوج کے سامنے آیا، امام حسین نے آگے بڑھ کرحرسے کہا کہ میں تم
ہی لوگوں کے بلانے سے یہاں آیا ہوں؛ اگرتم لوگ اپنے عہدواقرار پرقائم ہوتومیں
تمہارے شہر میں داخل ہوں گا، نہیں توجس طرف سے آیا ہوں اسی طرح واپس چلاجاؤنگا،
حر نے کہا ہم کوعبیداللہ بن زیاد کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کواس کے
سامنے زیرحراست لے چلیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ذلت توہرگز گوارا
نہیں ہوسکتی کہ ابن یزید کے سامنے گرفتار ہوکر جائیں، اس کے بعد انھوں نے واپسی کا
ارادہ کیا توحر نے ابنِ زیاد کے خوف سے واپس ہونے سے روکا اور واپسی کے راستے میں
اپنی فوج لے کرکھڑا ہوگیا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہاں سے شمال کی جانب کوچ
کیا اور قادسیہ کے قریب پہنچ گئے، وہاں معلوم ہوا کہ عمروبن سعد ایک بڑی فوج کے
ساتھ مقیم ہے، حر آپ کے پیچھے پیچھے تھا، قادسیہ کے قریب پہنچ کرامام ؑوہاں سے
لوٹے اور دس میل چل کرمقامِ کربلا میں آکرمقیم ہوئے، عمروبن سعد آپ کی خبر سن
کرمعہ فوج روانہ ہوا اور سراغ لیتا ہوا اگلے روز کربلا پہنچ گیا، قریب پہنچ
کرعمروبن سعد اپنی فوج سے جدا ہوکر آگے آیا اور امام حسین علیہ السلام کوآواز دے
کراپنے قریب بلایا، سلام علیک کے بعد ابن سعد نے کہا کہ:بیشک آپ یزید کے مقابلے
میں زیادہ مستحقِ خلافت ہیں؛ لیکن خدائے تعالیٰ کویہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان
میں حکومت وخلافت آئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حالات
آپ کے سامنے گذرچکے ہیں ، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ:میں اس وقت تین
باتیں پیش کرتا ہوں، تم ان تین میں سے جس کوچاہو میرے لیے منظور کرلو:اوّل تویہ کہ
جس طرف سے میں آرہا ہوں؛ اسی طرف مجھے واپس جانے دوتاکہ میں مکہ معظمہ میں پہنچ
کرعبادتِ الہٰی میں مصروف رہوں۔دوّم یہ کہ مجھ کوکسی سرحد کی طرف نکل جانے دوکہ
وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں۔سوّم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور
مجھ کوسیدھا یزید کے پاس دمشق جانے دو، میرے پیچھے پیچھے اپنے اطمینان کی غرض سے
تم بھی چل سکتے ہو، میں یزید کے پاس جاکر براہِ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے
کرلونگا جیسا کہ میرے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے امیرمعاویہ رضی
اللہ عنہ سے طے کیا تھا۔عمروبن سعد یہ سن کربہت خوش ہوا اور کہا کہ میں بطورِ خود
کوئی پختہ جواب آپ کو نہیں دے سکتا، میں ابھی عبیداللہ بن زیاد کواطلاع دیتا ہوں،
یقین ہے کہ وہ ضرور ان میں سے کسی ایک بات کومنظور کرلے گا، عمروبن سعد بھی اسی
میدان میں خیمہ زن ہوگیا اور ابن زیاد کویہ تمام کیفیت لکھ بھیجی۔
ابن زیاد نے کہا پھر
تو معاملہ ختم ہوجائیگا ،حضرت حسن کی بہتر راے ہے وہ خود جاکر یزید سے اپنا معاملہ
حل کرلیں گے لیکن شمرذی الجوشن اس وقت اس کے پاس موجود تھا، اس نے کہا اگرامام
حسین رضی اللہ عنہ یزید کے پاس چلے گئے توپھران کے مقابلے میں تیری کوئی عزت وقدر
باقی نہ رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کرلیں گے، یہ سن کرابنِ زیاد نے
عمروبن سعد کوجواب میں لکھا کہ:یہ تینوں باتیں کسی طرح منظور نہیں ہوسکتیں،صرف ایک
صورت ہے کہ امام حسین اپنے آپ کوہمارے سپرد کردیں اور یزید کی بیعت نیابتاً اوّل
میرے ہاتھ پرکرے؛ پھرمیں ان کویزید کے پاس اپنے اہتمام سے روانہ کروں گا۔اس جواب
کے آنے پرعمروبن سعید نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کواطلاع دی اور کہا کہ میں
مجبور ہوں، ابنِ زیاد خلافتِ یزید کی بیعت اوّل اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے اور کسی
دوسری بات کومنظور نہیں کرتا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے تومرجانا
بہتر ہے کہ میں ابن زیاد کے ہاتھ پربیعت کروں۔ابن سعد حضرت حسین کا احترام کرتے
تھے ،کسی طرح معامل حل ہوجائے اس کی فکر میں تھے ، بالآخر جویرہ کو ابن زیاد نے خط دیکر بھیجا کہ اگر ابن سعد حسین
رضی اللہ عنہ کا سر نہ کاٹے تو تم اس کو قید کر کے میرے پاس لے آنا یہ خط لے
کرجمعرات کے دن ۹/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کوابنِ سعد کے پاس
پہنچا، ابن سعد اس وقت اپنے خیمہ میں بیٹھا تھا، خط کوپڑھتے ہی کھڑا ہوگیا اور
گھوڑے پرسوار ہوکر لشکر کوتیاری کا حکم دیا ، جب امام حسین کے روبرو ہوا،تو امام
حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کوکل تک کے لیئے اور سوچنے کی مہلت دو، ابنِ سعد
نے جویرہ کی طرف دیکھا کہ اس نے کہا کہ کل کچھ دور نہیں ہے، اتنی مہلت دے دینی
چاہیے، ابن سعد میدان سے واپس آیا اور فوج کوحکم دیا کہ کمرکھول دو، آج کوئی لڑائی
نہ ہوگی۔ادھرابن زیاد نے فوراً شمرذی الجوشن کوبلوایا اور کہا کہ میں جویرہ کوبھیج
چکا ہوں اور اس کوحکم دے دیا ہے کہ اگرابن سعد لڑائی میں تامل کرے تواس کوگرفتار
کرکے لے آئے، ابن سعد کی طرف سے مجھ کومنافقت کا شبہ ہے؛ اگرجویرہ نے ابنِ سعد
کوگرفتار کرلیا توفوج جومیدان میں پڑی ہوئی ہے، سب آوارہ اور ضائع ہوجائے گی، میں
تجھ سے بہتر اس کام کے لیے دوسرا شخص نہیں پاتا توفوراً میدانِ کربلا کی طرف جا
اور اگرابنِ سعد گرفتار ہوچکا ہوتوفوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے اور امام حسین رضی
اللہ عنہ سے لڑکر ان کا سرکاٹ لا، اگرابنِ سعد گرفتار نہ ہوا ہو اور لڑائی میں تامل
کررہا ہوتوفوراً جاتے ہی لڑائی چھیڑدے ،شمرصبح کے وقت روانہ ہوا اور عصر کے وقت
پہنچا، شمر کے آنے پرتمام کیفیت جوپیش آئی تھی، سنادی، شمر نے کہا کہ میں توایک
لمحہ کی بھی مہلت نہ دونگا ،ابن سعد شمر کوہمراہ لے کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے
پاس آیا اور کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے یہ دوسرا قاصد بھیجا ہے اور مہلت آپ
کوبالکل دینا نہیں چاہتا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ اب
مہلت کے دینے یانہ دینے کی کیا ضرورت ہے، آفتاب توغروب ہورہا ہے، کیا رات کے وقت
بھی، تم لوگ جنگ کوکل کے لیئے ملتوی نہ رکھو گے، یہ سن کرشمرذی الجوشن نے بھی کل
صبح تک کا انتظار مناسب سمجھا اور دوونوں اپنے لشکرگاہ کوواپس چلے آئے۔
ابن زیاد نے رات ہی میں عمر بن سعد کو حکم دیا کی فرات کا پانی بند
کردو،عمروبن سعد نے اس حکم کے پہنچتے ہی عمروبن الحجاج کوپانچ سوسواردے کرساحلِ
فرات پرمتعین کردیا،اور قافلہ حسینی کو پانی لینے سے منع کردیا ،
اس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ہمراہیوں
کواپنے پاس بلاکر کہا کہ تم لوگ یہاں سے جس طرف کومناسب سمجھو، چلے جاؤ، تم
کوکوئی بھی کچھ نہ کہے گا؛ کیوں کہ دشمنوں کوصرف میری ذات سے بحث ہے، تمہارے چلے
جانے کوتووہ اور بھی غنیمت سمجھیں گے، میں تم سب کواجازت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی
جان بچالو، ہمراہیوں نے یہ سن کرکہا کہ ہم ہرگز ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے، ہم
سب آپ کے اوپرقربان ہوجائیں گے اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے، آپ کوآزار نہ پہنچنے
دیں گے؛ اسی شب تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص طرماح بن عدی جواس نواح میں آیا تھا،
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ابنِ سعد کے لشکروں کا حال سن کرامام حسین رضی
اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تنہا میرے ساتھ چلیں، میں آپ کوایک ایسے راستے
سے لے چلوں گا کہ کسی کومطلق اطلاع نہ ہوسکے گی اور اپنے قبیلہ بنی طے میں لے جاکر
پانچ ہزار آدمی اپنے قبیلہ کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، آپ ان پانچ ہزار سے
جوچاہیں کام لیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابھی ان سب سے کہا تھا
کہ مجھ کوتنہا چھوڑ کرتم سب چلے جاؤ توانھوں نے اس بات کوگوارا نہیں کیا، اب یہ
کیسے ممکن ہے کہ میں ان سب کوچھوڑ کرتنہا اپنی جان بچاکر نکل جاؤں، ۔
جنگ کی ابتداء
جب صبح ہوئی توشمرذی الجوشن اور عمروبن سعد صفوفِ لشکر کوآراستہ کرکے
میدان میں آئے،بعض روایات کے موافق آپ کے ہمراہ اس وقت جب کہ لڑائی 10/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کی صبح کوشروع ہوتی ہے،
بہتر آدمی موجود تھے، بعض روایات کے موافق ایک سوچالیس اور بعض کے موافق دوسوچالیس
تھے؛ بہرحال اگربڑی سے بڑی تعداد یعنی دوسوچالیس بھی تسلیم کرلیں تودشمنوں کی
ہزارہا جرار افواج کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی کوئی حقیقت نہ
رکھتے تھے، امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہمراہیوں کومناسب مقامات پرکھڑا کرکے اور
ضروری وصیتیں فرماکر اونٹ پرسوار ہوئے ،
شمرذی
الجوشن نے عمروبن سعد سے کہا کہ اب دیرکیوں کررہے ہو؟ عمروبن سعد نے فوراً ایک
تیرکمان جوڑکر حسین علیہ السلام کے لشکر کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ
سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے، اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دوآدمی نکلے، امام
حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ پرجاکر دونوں کوقتل کردیا؛
پھراسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، دیرتک مبازرہ کی لڑائی ہوتی رہی اور اس میں
کوفیوں کے آدمی زیادہ مارے گئے؛ پھراس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے
ایک ایک آدمی نے کوفیوں کی صفوں پرحملہ کرنا شروع کیا، اس طرح بہت سے کوفیوں کا
نقصان ہوا، حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں نے آلِ ابی طالب کواس وقت تک
میدان میں نہ نکلنے دیا، جب تک کہ وہ ایک ایک کرکے سب کے سب نہ مارے گئے، آخر میں
مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آلِ علی پرسبقت کی، ان کے بعد حضرت امام حسین علیہ
السلام کے بیٹے علی اکبر نے دشمنوں پررستمانہ حملے کیئے اور بہت سے دشمنوں کوہلاک
کرنے کے بعد خود بھی شہید ہوگئے، ان کے قتل ہونے کے بعد امام حسین علیہ السلام سے
ضبط نہ ہوسکا اور آپ رونے لگے؛ پھرآپ کے بھائی عبداللہ ومحمد وجعفر وعثمان نے
دشمنوں پرحملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کومار کرخود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہوگئے، آخر
میں امام حسین علیہ السلام کے ایک نوعمر بیٹے محمدقاسم نے حملہ کیا اور وہ بھی
مارے گئے؛ غرض کہ امام حسین کے لیئے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں
سے بڑھ کرمصیبت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید ہوتے
ہوئے دیکھا، امام حسین علیہ السلام کے
ہمراہیوں اور خاندان والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے تودوسری طرف
وفاداری وجان نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کردیں ،نہ بے وفائی وتن آسانی کا
الزام اپنے اوپر لیا۔حضرت امام حسین علیہ السلام سب سے آخر تنہا رہ گئے، خیمہ میں
عورتوں کے سوا صرف علی الاوسط معروف بہ زین العابدین جوبیمار اور چھوٹے بچے تھے،
باقی رہ گئے تھے، عبیداللہ بن زیاد ظالم نے یہ حکم بھی بھیج دیا تھا کہ امام حسین
رضی اللہ عنہ کا سرمبارک کاٹ کران کی لاش گھوڑوں سے پامال کرائی جائے کہ ہرایک عضو
ٹوٹ جائے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری وجواں مردی کے ساتھ دشمنوں پرحملے کئے ہیں کہ ان
حملوں کی شان دیکھنے والا ان کے ہمراہیوں میں سے کوئی نہ تھا؛ مگرعمروبن سعد اور
شمرذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر وجری
انسان نہیں دیکھا، دشمنوں میں کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ امام حسین رضی
اللہ عنہ میرے ہاتھ سے شہید ہوں؛ بلکہ ہرشخص آپ کے مقابلہ سے بچتا اور طرح دیتا
تھا، آخر شمرذی الجوشن نے چھ شخصوں کوہمراہ لے کرآپ پرحملہ کیا اور ان میں سے ایک
نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ امام حسین علیہ السلام کا بایاں ہاتھ کٹ کرالگ گرپڑا،
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس پرجوابی وار کرنا چاہا؛ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کا
داہنا ہاتھ بھی اس قدر مجروح ہوچکا تھا کہ تلوار نہ اُٹھا سکے، پیچھے سے سنان بن
انس نخعی نے آپ رضی اللہ عنہ کے نیزہ مارا جوشکم سے پارہوگیا، آپ رضی اللہ عنہ
نیزہ کا یہ زخم کھاکر گرے، اس نے نیزہ کھینچا اور اس کے ساتھ ہی آپ علیہ السلام کی
روح بھی کھینچ گئی، انا للہ واناالیہ راجعون۔
شہادت حسین کے بعد
اس کے بعد شمر نے یاشمر کے حکم سے کسی دوسرے شخص نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرجسم سے جدا کیا اور عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ سوار متعین کئے گئے؛ انھوں نے اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے آپ کے جسم مبارک کوخوب کچلوایا؛ پھرخیمہ کولوٹا، آپ کے اہلِ بیت کوگرفتار کیا زین العابدین جولڑکے تھے، شمرذی الجوشن کی نظر پڑی توان کواس نے قتل کرنا چاہا؛ مگرعمروبن سعد نے اس کواس حرکت سے باز رکھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک اور آپ کے اہلِ بیت کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس بھجے گئے، کوفہ میں ان کوتشہیر کیا گیا، پھرتیسرے روز شمرذی الجوشن کوایک دستہ فوج دیکر اس کی نگرانی میں یہ قیدی اور سرمبارک یزید کے پاس دمشق کی جانب روانہ کیا، علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا سر مبارک، امام زین العابدین اور تمام عورتیں جب یزید کے پاس پہنچے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا سراس نے دیکھا تودرباری اور یزید خود اس کی بیوی رونے لگے اس پر یزید نے عبیداللہ بن زیاد کوگالیاں دیکر کہنے لگا کہ اس پسرسمیہ کومیں نے یہ حکم کب دیا تھا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوقتل کردینا؛ پھرشمرذی الجوشن اور عراقیوں کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ میں توتمہاری اطاعت وفرماں برداری سے ویسے ہی خوش تھا، تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوکیوں قتل کردیا، شمرذی الجوشن اور اس کے ہمراہی اس توقع میں تھے کہ یزید ہم کوانعام دیگا اور ہماری عزت بڑھائے گا؛ مگریزید نے کسی کوکوئی انعام وصلہ نہیں دیا اور اپنی ناخوشی ونارضگی کا اظہار کرکے سب کوواپس لوٹا دیا۔ ، اس کے بعد ان قیدیوں کوآزادی دیکر بطورِ معزز مہمان اپنے محل میں رکھا، عورتیں اندر عورتوں میں گئیں توانھوں نے دیکھا کہ یزید کے محل سرا میں بھی اسی طرح ماتم برپا ہے اور سب عورتیں رورہی ہیں، جس طرح امام حسین کی بہن اپنے بھائی اور عزیزوں کے لیے رورہی تھیں،یہی سے ماتم ، نوحہ ، اور عورتوں کا گریہ وغیرہ کا رسم بد چل پڑا،جبکہ کسی پر تین سے زیادہ سوگ منانے اللہ کے نبی ﷺ نے سختی سے ہم کو منع کیا ہے ۔ اللہ ہم سب کو اہل بیت سےمحبت عطاکرے اور رسم بد سے مکمل حفاظت فرمائے آمین ۔
بالآخر چند روز شاہی مہمان رہ کریہ بربادشدہ قافلہ مدینہ
کی طرف روانہ ہوا، یزید نے ان کوہرقسم کی مالی امداد دی اور علی بن حسین سے ہرقسم
کی امداد کا وعدہ کیا کہ جب تم لکھوگے تمہاری فرمائش کی ضرور تعمیل کی جائے گی۔
( ماخوذ: انوار اسلام ،مکتبہ جبرئیل ،تاریخ اسلام جلد دوم
،طبقات ابن سعد )
تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے نزدیک