Wednesday, September 6, 2023

موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری، موجودہ حالات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل

 

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     

ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام

قائین کرام پیش نظر گراں قدر اصلاحی پر مغز مضمون در اصل حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم (شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی خطاب ہے ،جو موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری،جس کو مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانی، نے پڑی محنت سے ترتیب و تلخیص کیا ہے ، راقم نے اشاعت دین کے پیش نظر شائع کررہا ہے ، اللہ تعالیٰ حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ مرتب و راقم کیلئے زاد آخرت بنائے آمین ۔

            اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے، حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانیں جل جاتی تھیں، کچھ مکانات میں آگ لگ جاتی تھی، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتے تھے؛ لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں،اسلامی حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے نیز اس طرح کے کئی ایک مسائل(جن کا اسلامی تشخص سے تعلق ہے) برابر اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور گندا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

            ابھی حالیہ دنوں میں The Kashmir file کے نام سے کشمیری پنڈتوں سے متعلق ایک فلم بنائی گئی اور پورے ملک میں دکھائی گئی؛جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف غیرمسلوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو، وہ اشتعال میں آئیں اور انتقامی کارروائی کے لیے انھیں ابھارا جائے۔

            ناموافق حالات مسلسل آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و ادراک نہیں۔سب جانتے ہیں؛مگر اس کے مقابلے کے لیے تیار نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلاتے ہیں یا اپنے کو فکرمند ظاہرکرتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہے ہیں، عام مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی ہے،آج میں یہی بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں تین کام ہیں جو اس وقت ہمارے کرنے کے ہیں۔میں سب سے پہلے اپنے آپ سے مخاطب ہوں،پھر اپنے اہلِ خانہ و متعلقین سے، پھر اہلِ محلہ و اہلِ شہر سے اور پورے ملک کے لوگوں سے جہاں تک یہ آواز پہونچ سکتی ہے۔

پہلا کام

            سب سے پہلی چیز اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اعمال و اخلاق کو درست کریں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَہِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ (آل عمران:۱۳۹) تم کمزور مت پڑو اور رنجیدہ مت ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرطے کہ تم ایمان والے ہو،یعنی ایمان تمہارے اندر مضبوط ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہو تو یقینی طور پر تمہیں کامیابی اور سربلندی ملے گی۔یاد رکھیں!یہ اللہ کا جو اعلان ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ہے: فلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً (فاطر:۴۳)تم ہرگز اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے، اللہ کے فیصلہ میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا،جو ضابطہ ہے،وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

            لہٰذا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ کمزور نہ پڑیں، بزدل نہ بنیں، دل کے اندرایمانی قوت پیدا کریں، موت ایک مرتبہ آنی ہے اور وقت مقرر پر آنی ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، اس کا استحضار رکھیں۔

موت کا ایک دن معین ہے، ایمان کی بنیادی چیزوں میں یہ بات شامل ہے کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اپنی عمر متعین کرواکے آتاہے: فاذَا جَآءَ أَجَلُہُمْ لَا یَسْتاْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:۳۴) جب مرنے کا متعین وقت آجاتاہے تو بندہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتاہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے آسکتاہے۔قرآن مجید کے مطابق آدمی اگر مضبوط قلعوں کے اندر بھی چھپ کر بیٹھے گا تو موت وہاں پہونچ کر رہے گی؛ اس لیے موت تو آنی ہے، ہر ایک کو آنی ہے،اپنے وقت پر آنی ہے اور صرف ایک مرتبہ آنی ہے؛لہٰذا موت کے خوف سے آدمی کا ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنے دل کو کمزور کرنا یہ ایمانی قوت کے بالکل خلاف ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ ان کو میدان جنگ میں برچھی لگتی تو وہ کہتے: فُزتُ وَرَبِ الکَعبَة خدا کی قسم میں تو کامیاب ہوگیا؛ اس لیے دل کو مضبوط رکھیں اور جو کام کرنے کے ہیں،انھیں کرتے رہیں،ایمان کو طاقت وربنانے کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کریں، اخلاق کو درست کریں، جلوت اور خلوت کی زندگی کو تقوی والی زندگی بنائیں، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائیں،رمضان ہو کہ غیر رمضان نمازوں کا اہتمام سو فیصد ہو،دیگر اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا رہیں،اسی طرح جو ہماری اخلاقی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں، ان سے خود بھی رکیں اور توبہ کریں، ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں کو، بچوں کو،عورتوں کو، جوانوں کو ان سے روکیں، ماحول سے خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؛ اس لیے کہ اللہ کی مدد تقوی اور صبر کے ساتھ مشروط ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّٰہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ(یوسف:۹۰) جو آدمی تقوی اختیار کرتا ہے،اللہ سے ڈرتاہے اور دین پر جم جاتاہے،اللہ تعالی اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی اِسی تقوی اور صبر کی بنیادپر مدد ہوئی ہے؛ لہٰذا ہم بھی اپنے ایمان کو بنائیں، اعمال کو درست کریں اور اخلاق کو سنوارنے کی فکر کریں۔

دوسرا کام

            دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛اس لیے کہ ایک تصویر تو اسلام اور مسلمانوں کی وہ ہے جو دوسروں کی طرف سے دنیا والوں کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ یہ متشدد ہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں، قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ اور ایک اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے،جس پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے،یعنی ہم امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہم دردی کرنے والے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!اغیار کی غلط تشہیروں، فرضی فلموں اور بے بنیادپروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور بٹھایا جارہاہے،یہ صرف تقاریرو بیانات سے ختم نہیں ہوگا؛بل کہ عمل کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔

            آپ دیکھ لیجیے!ابھی سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،زندگی کے لالے پڑے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا ہے، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا، اُس کا اثر برادرانِ وطن پر پڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے تھے، ان کے اندر احساس پیداہوا اور اُنھیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں غلط رائے رکھتے تھے!۔ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہر کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ زندہ رہیں اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے:

اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

            ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے، محبت کا پیغام پہونچانا چاہیے اور محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہرگز دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے،جو حالات چل رہے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی سیاسی پارٹی اِن کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈرکھل کر سامنے آرہاہے، ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے؛ اس لیے اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں اور دل کے اندر ہمت پیدا کریں۔اب رہا یہ سوال کہ حالات کی بنا پر جو دل میں کمزوری آرہی ہے،ذہن میں جوخوف بیٹھا ہواہے،عجیب طرح کی دہشت طاری ہے،اس کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کیسے دور ہوگی؟

ہماری بے وزنی کا اصل سبب

            اس موقع پر ایک حدیث یاد آئی، جو پہلے سے آپ کے علم میں ہوگی اور آپ بارہا سن چکے ہوں گے،وہ حدیث آج کے حالات پر من وعن صادق آرہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأکلَةُ إِلَی قَصْعَتِہَا. فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ: ”بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَةَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنَ“ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الْوَہَنُ قَالَ: ”حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَةُ الْمَوْتِ

            ترجمہ:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،(آپ…کا یہ فرمان سن کر) ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ … نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے؛لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بے وقعت) ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ”وہن“ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ …نے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے۔(ابوداؤد)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ پیشین گوئی فرمائی تھی، اس وقت صحابہ کرامکی شوکت تھی، قوت تھی دبدبہ تھا،ایک مہینے کے فاصلہ تک ان کا رعب پہونچا ہوا تھا؛اس لیے وہ آپ … کا ارشاد سن کر تعجب سے کہنے لگے: کیا اُس وقت ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ…نے فرمایا:نہیں! تم لوگ اُس وقت تعداد میں بہت ہوگے؛ لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب کے زمانے میں پانی کی سطح پر بہنے والے کوڑے کرکٹ اور جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے،نہ ان کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے،نہ ان کے اندر کوئی طاقت و قوت ہوتی ہے، وہ بہاؤ سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتے، پانی کا بہاؤ جدھر لیے جارہاہے، بہتے چلے جارہے ہیں، کہیں کوئی چیز آگئی ٹکرا گئے،نشیب آیا تو نیچے گرگئے۔ بالکل اِسی طرح تم بے وقعت ہوجاؤگے۔

            مزید فرمایا:اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا۔ صحابہنے پوچھا کہ یہ بزدلی کہاں سے آئے گی اورکیوں آئے گی؟آپ …نے فرمایا:اس کے دو سبب ہوں گے:دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت۔یہ دو اسباب ہیں جو بزدلی لانے والے اوردل میں کمزوری پیدا کرنے والے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو اسباب کمزوری اور بزدلی لانے والے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو ختم کیاجائے اور انھیں ہٹانے کی کوشش کی جائے۔

دنیا کی محبت کیا ہے؟

            دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں اور دنیا کی فانی لذتوں کے اسیر بن جائیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نیند ہمیں پیاری ہے،نماز پیاری نہیں،ہم سود لے رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، وارثوں کا حق مار رہے ہیں،پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں اور یہ سب کام چار پیسے کی خاطر، تھوڑی سی لذت اور تھوڑی سی راحت کی خاطر کیے جارہے ہیں،یہی حب الدنیا ہے؛جس کے ہوتے ہوئے اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ایک مقام پرارشاد باری ہے:

 قُلْ إِن کَانَ آبَآؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَٰنُکُمْ وَأَزْوَٰجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَٰلٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَٰسِقِینَ.(التوبة:۲۴)

            ترجمہ: اے پیغمبر! مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں،تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔

            یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن راستوں سے یہ کمزوری آرہی ہے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی کے ہاں ایمان و اعمال کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اورایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ صحابہ پر حالات آئے، غزوہ احد میں حالات آئے، غزوہ حنین میں حالات آئے اور صرف آپ … ہی پر نہیں،پچھلے انبیاء کرام پر بھی حالات آئے؛ جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا کہ انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور اُن کے امتی کہنے لگے آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ فرماتے ہیں: سنو!اللہ کی مدد قریب ہے۔

            ایک مقام پراسی ابتلاوآزمائش کا یوں ذکر کیاگیا: وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن(البقرة:۱۵۵) ہم ضرور تم کو آزمائیں گے؟ کس چیز سے آزمائیں گے؟ کچھ خوف میں مبتلا کریں گے،فاقے میں مبتلا کریں گے،مالوں کی کمی میں مبتلا کریں گے،جانوں کی کمی میں مبتلا کریں گے، پیداوار کی قلت کے ذریعہ آزمائیں گے،یہ سارے حالات ہماری طرف سے ضرور بالضرور آئیں گے؛لیکن یہ امتحان ہوگا اور امتحان کس لیے ہوتاہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس میں کامیاب ہوتاہے اور کون ناکام ہوتاہے۔ جو کامیاب ہوتاہے وہ نوازاجاتاہے اور جو ناکام ہوتاہے اس کو سزا ملتی ہے۔پھرفرمایا: اِس امتحان کے اندر کامیابی انھیں لوگوں کو ملے گی جو ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔صبر کے معنی صرف مصیبت کو برداشت کرنانہیں ہے؛ بلکہ مصیبت ہو یا راحت ہر حال میں دین پر جمے رہنا، ہر طاعت کو اختیار کرنا،ہر معصیت سے اپنے نفس کو روک کر رکھنا اور حالات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر انھیں برداشت کرنا، یہ صبر کا مجموعہ ہے یعنی طاعت پرصبر، معصیت سے بچنے کے لیے صبراور مصیبت پرصبر۔ جہاں یہ صبر کی تینوں قسمیں پائی جائیں گی،اللہ فرماتے ہیں:ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے !جن کا شیوہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے؛یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خصوصی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور عام رحمت میں بھی ان کا حصہ ہوتا ہے اور یہی سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔

تیسرا کام

            ان حالات میں تیسرا کام یہ ہے کہ ہم دعاؤں کا اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے، صرف آیاتِ کریمہ کا ختم کرنے سے اور صرف حصنِ حصین پڑھ کر ہاتھ اٹھانے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے اپنے آپ کو بدلنے سے اور اپنے اندر انقلاب پیداکرنے سے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

            ہم اپنے کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،اللہ تعالی کے یہاں فیصلے اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک ہی دعائیں قبول کریں گے؛ لیکن دعاؤں کے ساتھ ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا ؛اس لیے صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں۔

خلاصہٴ کلام

            ابھی جو باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں، اجمالی طور پر ان کا اعادہ مناسب سمجھتا ہوں۔سب سے پہلی بات: اپنا ایمان مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔

            دوسری بات : برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے؛ تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے جو کوشش ہورہی ہے اس کا عملی توڑ ہوسکے۔

            تیسری بات :دعا ئیں کرتے رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی، وہ ایک مرتبہ آئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے کانپتے رہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، اپنی حفاظت کا حق شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،اس کا استعمال کریں، خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں کہ ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں۔ہم امن و امان کے محافظ ہیں؛ اس لیے اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں؛ لیکن اگر ہماری جان و مال اورعزت وآبرو پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر نہ لگائیں ؛بلکہ اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں، ان کے ذریعہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں!اخیر میں پھر کہوں گا کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا ، ایمان والے کی شان نہیں ہے۔

            اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے،آمین!

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏،16 محرم الحرام  1445ہجری مطابق 4اگست.2023ء


Wednesday, August 30, 2023

کائنات کی وسعت ، کائنات meaning


 

کائنات کی وسعت

    ﷽                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           

کائنات کی وسعت

قارئین کرام ! اللہ تعالی نے اس کائنات  کی وسعت اس انداز سے بنایا ہے اسے آج تک کوئی اندازہ نہیں لگا سکا ، صرف اس کائنات کا جس میں ہم انسان رہتے ہیں اس کے طول و عرض کا اندازہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی نہیں لگایا جا سکا ،جبکہ اس کائنات کے علاوہ اور بھی دنیا موجود ہے ، کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں قرآن کریم میں مختلف مقامات پرکائنات کی وسعت تذکرہ کیا ہے، سورہ فاتحہ میں ارشاد باری ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(1)

یعنی تمام  تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام کائنات کا پروردگار ہے۔

اس آیت  سےمعلوم ہوگیا کہ جس طرح ہماری دنیا ہے اسی طرح اور بھی کئی دنیا ہیں ۔اسی وجہ سے آیت کریمہ میں عالمین کو جمع لایا گیا ہے ۔

قارئین کرام ! آئیے سائنسدانوں کی تحقیق پر نظر کرتے ہیں ،جبکہ سائنس کی تحقیق کو آخری تحقیق نہیں کہا جا سکتا ہے ، کائنات کی وسعت کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھیں کہ روشنی کائنات کا سب سے تیز رفتار شی ہے ، روشنی ایک سکینڈ میں 300000کلو میٹر طے کرتی ہے ، اس رفتار سے پورے ایک دن سفر کریں تو اس کو one light dayکہتے ہیں ، اور اسی رفتار سے ایک سال تک  کے سفر کو one light yeaاہتے ہیں  yerر اگر ایک سال تک فتار شی ہے ، روشنی ایک سکینڈ میں 300000کلو میٹر طے کرتی ہے ، اس رفتار سے پورے ایک دن سفر کریں تو اrکہتے ہیں ۔one light yeaاہتے ہیں  yerر اگر ایک سال تک فتار شی ہے ، روشنی ایک سکینڈ میں 300000کلو میٹر طے کرتی ہے ، اس رفتار سے پورے ایک دن سفر کریں تو اr کو کلو میٹر میں جانیں تو 95 کھرب کلو میٹر کا کے برابر ہوتا ہے ۔

چاند زمین سےتقریبا 385000کلو میٹر دور ہے ، اور ہماری زمین سورج سے تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 

سورج کی جسامت کا اس سے اندازہ لگائیں ، اگر سورج کے اندرزمین کو ڈالا جائے تو سورج میں تیرہ لاکھ زمین سما سکتی ہیں ۔سورج سے بڑا Vegastar ہے اس میں سورج جیسے 20 تارے سما سکتے ہیں ، 



اس سے بھی بڑا Arctrusہے اس میں سورج جیسے 17 ہزرا تارے سماجائیں گے ،یہ کائنات  کی وسعت ۔

اس کے آگے Rigel ہے اس میں آرکٹس جیسے 50اور سورج جیسے 4لاکھ 85 ہزار تارے سماسکتے ہیں ، اس کے آگے Beturjus ہے اس  میں سورج جیسے 67کڑور  تارے سماسکتے ہیں ،

 اس کے آگے Stephens ہے اس میں سورج جیسے 9 عرب 43 لاکھ سارے سماسکتے ہیں ۔ اللہ اکبر کبیرا ۔

یہ کائنات جس میں ہم لوگ رہتے ہیں جس میں اوپرچاند سورج اور بے شمار تارے جو دیکھ رہے ہیں اس میں سے اکثر زمیں  سےکڑورو ۔ عربو گنا بڑا ہے ، جس گلکسی میں رہتے ہیں اسے ملکی گلکسی کہتے ہیں ، اس  میں تقریبا سو کھرب تارے  موجود ہیں ، اس کے علاوہ ایک لوکل گلیکٹک گروپ ہے اس میں 54 ملکی گلکسی ہیں ، اگر ہم لوکل کلیکٹک کے ایک کنارہ سے دوسرے کنارہ پر جانا چاہیں تو 1کڑور لائٹ ایر کی دوری طے کرنی ہوگی ۔

لوکل گلیکٹک کے آگے ورگو سوپر کلسٹر ہے ، جس میں لوکل گلیکٹک جیسے لاکھوں گلیکٹک رہتے ہیں ، اگر ایک کنارہ سے دوسرے کنارہ جائیں تو 11کڑور لائٹ ایر لگے گا ،

لناکا کلسٹر اس میں ایک لاکھ گلکسی موجود ہیں ، ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی دوری 52 کڑور لائٹ ایر ہے۔

کائنات کی وسعت
اب تک ساینس دانوں نے جو آخری کھوج کی ہے وہ Observab univers ہے اس میں تقریبا دوہزارکھرب گلکسی ہے اور اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کی دوری 93 کڑور لائٹ ایر ہے۔

جب یہ سارے تفصیل کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی قدرت سمجھ میں آتی ہے جبکہ اس کے علاوہ چھ آسمان و زمین اور بھی ہیں، ان تمام کی وسعت اور لمبائی و چورائی کا علم انسان کے بس میں نہیں ہے ۔

 

 نیا عنوان

 چندریان 3

                     

 

 

 

 

Thursday, August 24, 2023

چندریان 3

 

چندریان 3

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا

پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن ہوگیا بروز چہارشنبہ  تقریبا6 بجے چندریان تھری چاند کے قطب جنوبی پر چندا ماما کے گھر 🏠 مہمان بن کر پہنچ گیا۔

بڑے قابل ستائش اور مبارکبادی کے مستحق ہیں اسرو اور چندریان تھری کے مشن میں لگے تمام سائنسدان ۔

اللہ تعالی یوں ہی ملک ہندوستان کو مادی ترقیات سے نواز تے رے، اور ساتھ ہی تمام اہل ہند کو ہدایت تامہ عطا فرماے۔

اب تک کی چندریان

قارئین کو معلوم ہوگا چندر یان 3 سےپہلے ملک بھارت سےدو چندریان اور بھی چاند پر بھیجا گیا ہے :

چندریان 1:  22 ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام) سریشیکوٹا کے ستیش دھون خلائی مرکز سے 22 اکتوبر ، 2008 کو صبح 6.22 بجے لانچ کیا گیا تھااس کے بعد "چندریان 2" 22 جولائی 2019 چندریان دوم جیو سٹیشنری لانچ وہیکل ایم کے 3 ایم 1 راکٹ پر روانہ سوار ہو کر روانہ ہو کیا گیا،اور اب انڈیا کی جانب سے 14 جولائی2023ء  کو چندریان تھری خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتارلیا گیا ۔


چندریان کی جسامت

ایک رپورٹ کے مطابق چندریان تھری کا وزن 3900 کلوگرام ہے اور اس پر 6.1 ارب روپے لاگت آئی ہے۔چندریان تھری میں موجود چاند گاڑی جس کا نام اسرو کے بانی کے نام وکرم سے منسوب کیا گیا تھا، کا وزن 1500 کلوگرام ہے اور اس میں موجود پرگیان نامی روور 26 کلو کا ہے۔ پرگیان سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی دانشمندی کے ہیں۔



قومی آواز کے سوشل میڈیا پر ہے:

لینڈر وِکرم کے چاند کی سطح پر لینڈنگ کے تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد کے بعد ریمپ کے ذریعہ چھ پہیوں والا پرگیان رووَر باہر آیا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لینڈر وکرم کی سافٹ لینڈنگ کامیاب ہونے اور اِسرو سے کمانڈ ملتے ہی چاند کی سطح پر چلنے لگا۔ اب یہ چاند کی سطح کے 500 میٹر تک کے علاقے میں چل کر پانی اور وہاں کے احوال اور پر کشش کیفیتوں کے بارے میں اِسرو کو جانکاری  دے گا۔ اس دوران اس کے پہیے چاند کی مٹی پر ہندوستان کے قومی نشان اشوک استمبھ (ستون) اور اِسرو کے لوگوں کی چھاپ چھوڑیں گے۔

آخر میں راقم کی جانب سے اسرو اور چندر یان 3 کے مشن میں تن من دھن سے لگنے والے تمام سائنسدانوں کو مبارک بادی ہے ۔

 

Tuesday, August 22, 2023

ناقض وضو

 

نواقض وضو

اصولی طورپر نیچے کی چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے :

1.      آگے یا پیچھے کی شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا مثلاً پاخانہ، پیشاب، استحاضہ کا خون، کیڑا وغیرہ

2.                                                       پیچھے کے راستہ سے ہوا کا نکلنا ۔

3.     بدن کے کسی حصے سے نجاست کا نکل کے بہہ جانا،مثلا خون، پیپ، مواد وغیرہ۔

4.     منھ بھر کے قے کرنا ۔

5.     ٹیک لگا کر سوجانا ۔

6.     بے ہوش یا پاگل ہوجانا ۔

7.     بالغ کا رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ لگانا۔

8.     مباشرت فاحشہ یعنی بلا کسی حائل کے شرمگاہ کا شرمگاہ سےملانا ۔

سبیلین سے نکلنے والے:یعنی ہر وہ چیز جو آگے اور پیچھے کے راستے سے نکلےخواہ نکلنے والا ایسا ہو جو عادتا نکلتا ہے ،جیسے: پیشاب ،پائخانہ ،  مذی ،ریاح وغیرہ یا وہ ہو جو عادتا نہیں نکلتا ہے ،جیسے : حیض ، نفاس، کیڑا ، پتھروغیرہ ۔ان تمام چیزوں کی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائیگا ۔

مسئلہ :مرد کے آگے کے عضو سےہواکا نکلناناقض وضو نہیں ہے ، (شامی مصری ج:1ص:126)

مسئلہ : عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا کا نکلنا بھی ناقض وضو نہیں ہے ، ہاں اگر عورت مفضات ہوں یعنی ایسی عورت ہو جس کے سبیلن کا پردہ پھٹ گیا یا پردہ میں سوراخ ہو گیا ہو تو پھر ایسی عورت کی اگلی شرمگاہ سے نکلنے والی ہواسے وضو ٹوٹ جائیگا ۔ (شامی مصری ج:1ص:126)

مسئلہ : بعض امراض کی وجہ سے طبعی طریقہ پر فضلا ت کانکالنا دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں جگہوں پر یا پیٹ کے نچلے حصے میں جگہ بناکر پائپ لگا دیا جاتا ہے، جس سے پیشاب و پائخانہ خارج ہوکر ایک تھیلی میں جمع ہوتا ہے،جب پیشاب و پائخانہ  نکل کر نلکی میں آجائے ،تو یہ ناقض وضو ہوگا، اور چوں کہ پیشاب نلکی میں تقریبا تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے، لہذا یہ مریض سلسل البول کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے ہر نماز کے وقت وضو واجب ہوگا۔

قے کرنا : کھانا ، پانی ، جمے ہوے خون یا پت کی منھ بھرکی قے کرنا ناقض وضو ہے، منھ بھر کی قے کا پہچان یہ ہے کہ بلاتکلف منھ بند نہ کرسکے ۔

مسئلہ : اگر ایک ہی دفعہ کی متلی سے قے تھوڑا تھوڑا کئی مرتبہ ہوا ہو اور ان سب کی مقدار اس قدر ہو جو منھ بھر کے بقدر ہو تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائیگا ۔

مسئلہ: قے تھوڑا تھوڑا کئی متلی سے ہوا ہو تو سب کو جمع نہیں کیا جائیگا ۔(مراقی الفلاح ،ص: 49)

بدن کے کسی حصہ سے نجاست کا خروج: یعنی بدن کے کسی دوسرے حصے سے کسی نجس چیز کا نکل کرایسے مقام کی جانب بہہ جانا جسکو وضو یا غسل میں پاک کرنا ضروری ہو، اگر وہ نجس چیز بہا نہ ہو صرف دیکھا یا اسی جگہ نکل کر ٹہرا رہا تو فقط اس ظہور سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔( مراقی الفلاح ص: 48)

مسئلہ : اگر دانت یا منھ سے خون نکلا اور خون کی سرخی تھوک پر غالب ہو تو وضو ٹوٹ جائیگا ،اگر تھوک صرف زرد ہو تو خون مغلوب ہوگا اور اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔( مراقی الفلاح ص:49)

مسئلہ : اگر کان سے خون یا مواد بہا اور اس حصہ تک آگیا جہاں دھونا غسل میں فرض ہے تو وضو ٹوٹ جائیگا ۔(شامی ،ج: 1ص،: 137)

ٹیک لگا کر سوجانا : جس نیند کی وجہ سے انسان  اپنے اعضاء پر قدرت  نہ رکھ سکےاس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص  پہلو پر یا  ایک کولہے پر یا چہرے کے بل یا چت لیٹ کرسوجائے یا کسی ایسی چیز سے ٹیک لگا کر سوجائے کہ اگر اس چیز کو ہٹایا جائے تو وہ گرجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس میں وقت کی کوئی مقدار نہیں اگر تھوڑی دیر بھی آنکھ لگ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ صرف اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔( مراقی الفلاح ص:49)

بے ہوش یا پاگل ہوجانا: کسی شخص پر بے ہوشی یا جنون طاری ہوجا ئے تو وضو ٹوٹ جا تا ہے ،

مسئلہ : شراب یا افیون وغیرہ کے استعمال سے اس قدر نشہ طاری ہوجائے کہ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے تو یہ ناقض وضو ہے ۔ (کتاب المسائل ص: 156)

نماز میں قہقہ لگانا: یعنی اگر کسی بالغ شخص نے نماز میں قہقہ لگایا تو اس کا حکم اس طرح ہے ،قہقہہ وہ ہنسی ہے جو دوسرے کو بھی سنائی دے اس سے بیداری کی حالت میں وضو اور نماز دونوں فاسد ہوجاتے ہیں۔ ضحک وہ ہنسی ہے جس کی آواز اپنے تک محدود رہے اس سے بیداری کی حالت میں نماز فاسد ہوتی ہے ، نہ کہ وضو۔ اور تبسم وہ مسکراہٹ ہے جس میں کوئی آواز نہ ہو۔ اس سے نہ نماز فاسد ہوتی ہے نہ وضو، نماز کے اندر سونے کی حالت میں ہنسنے یعنی ضحک سے نہ نماز فاسد ہوتی ہے نہ وضو، اور سونے کی حالت میں قہقہہ لگانے سے صرف نماز فاسد ہوجاتی ہے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (نجم الفتاویٰ جلد دوم )

مسئلہ: نماز جنازہ میں آواز سے ہنسی آگئی تو وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ نماز باطل ہو جائیگی ۔(شامی ،ج:1 ص:135)

مسئلہ : دوران سجدہ تلاوت ہنسی آجائے تو تو وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ سجدہ تلاوت باطل ہو جائیگی ۔(شامی ،ج:1 ص:135)

مباشرت فاحشہ: یعنی بغیر کسی پردہ وغیرہ کے شرمگاہوں کا شہوت کے ساتھ ملنابھی ہے ناقض وضو ہے ، اگرچہ مذی (رطوبت) نہ نکلنے ۔ خواہ مرد کا عورت سے ہو یا مرد کا مرد کے دبرسے ہو یا عورت کا عورت سے ہو ( مراقی الفلاح مع الطحطاوی ،ص: 51)