﷽
دجالی فتنہ،قسط:-1
دجال کی حقیقت
قُربِ
قِیامت کی دس بڑی علامات ہیں جن میں سے ایک علامت “ دَجّال کا ظاہر ہونا “ بھی ہے ، فتنہ دجال تاریخِ انسانی تمام فتنوں سے بڑا خطرناک
فتنہ ہے ، جس سے تمام انبیاء
کرام ؑ نے اپنی اپنی اُمّت کو ڈرایا تھا۔
حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نوح ؑکے بعد کوئی نبی ایسا نہیں جس نے
اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے ڈرایا نہ ہو----(جامع
ترمذی،ج:2ح :118)
دجال
کے لغوی معنی:
1. کذاب
یعنی بڑا جھوٹا۔
2.
مالدار اور خزانوں والا۔
3.
بڑا گروہ جو اپنی کثرت سے زمین کو ڈھانپ
لے۔ (لسان العرب)
دجال کی قسمیں
دجّال دو قسم کے ہیں : (1)چھوٹے (2) بڑے۔
چھوٹے دجّال بہت سے آئے اور آتے رہیں گے ، ہر جھوٹا نبی ، جھوٹا مولوی ، جعلی صوفی
اورہر وہ شخص جو دوسروں کو راہ حق سے گمراہ کریں وہ دجّال ہے۔ہاں! بڑا دجّال صرف
ایک ہے جو دعویٰ خدائی کرے گا۔
“
چھوٹے دجال
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
رایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ
کر لیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت
اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو جائیں۔ ان میں
سے ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔“(بخاری، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ ،ح:3609)
کیا دجا ل انسان ہے؟
بعض علماء کرام نے انسان کہا ہے ۔(2) بعض نے شیطان کہا ہے ۔(3) اور بعض نے کہاں ہےانسان و جنات کے علاوہ کوئی دوسری
مخلوق ہے،اگر احادیث کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ دجّال مختلف الخلق یعنی
دجّال مختلف مخلوقات میں سےہوں گے۔ دجال کوئی
ایک مخلوق نہیں ہوگا؛بلکہ یہ انسان اور غیر انسان سے بھی ہو سکتا ہے ۔
بیان القرآن میں ہے :
”دجل“ کے
لفظی معنی دھوکہ اور فریب کے ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق ”دجال“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے
جو بہت بڑا دھوکے باز ہو ‘ جس نے دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ اور فریب کا لبادہ
اوڑھ رکھا ہو۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ چناچہ نبی
اکرم نے جن تیس دجالوں کی پیدائش کی خبر دی ہے ان سے جھوٹے نبی ہی مراد ہیں۔ دجالیت
کے اس عمومی مفہوم کو مدنظر رکھا جائے تو آج کے دور میں مادہ پرستی بھی ایک بہت بڑا
دجالی فتنہ ہے۔(بیان القرآن، سورہ کہف :2 )
ہاں!دجال
اکبر جو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہےاورجس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر مقام ”لُدّ“ میں قتل کریں گے، اس کا
انسان میں سے ہونا اغلب ہے ،اور یہی
متاخرین کا راجح قول ہے ،جیسا کہ احادیث مبارکہ میں جو نشانیاں آپ ﷺ نے بتائی ہیں
ان سے ظاہر ہوتا ہےکہ دجال اکبر انسان میں
سے ہوگا ۔
آپﷺ نے فرمایا:”وہ بھاری بھرکم جسم، سرخ رنگت، گھنگھریالے
بال اور ایک آنکھ سے نابینا ہے۔ اس کی آنکھ لٹکے ہوئے انگور کے دانے جیسی ہے۔"
(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث نمبر:
6709)
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: وہ آنکھوں سے نظر آ رہا
ہوگا(حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے)۔اس کی دونوں آنکھوں کے
درمیان "ک ف ر"یعنی کفر لکھا ہوگا جو ہر مومن پڑھ لے گا، خواہ وہ لکھنا
پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنہ الدجال و خروج عیسیٰ ،حدیث نمبر :
4077، الحاکم، حدیث نمبر : 8768)
بیان القرآن میں ہے :
''اس کے علاوہ دجال اور دجالی فتنے کا ایک خصوصی مفہوم بھی ہے۔
اس مفہوم میں اس سے مراد ایک مخصوص فتنہ ہے جو قرب قیامت کے زمانے میں ایک خاص
شخصیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوگا''۔(بیان
القرآن سورہ کہف)