Sunday, May 30, 2021

دجال کی حقیقت

 



دجالی فتنہ،قسط:-1

دجال کی حقیقت

     قُربِ قِیامت کی دس بڑی علامات ہیں جن میں سے ایک علامت “ دَجّال کا ظاہر ہونا “ بھی ہے ، فتنہ دجال تاریخِ انسانی تمام فتنوں سے بڑا خطرناک فتنہ ہے ، جس سے تمام انبیاء کرام ؑ نے اپنی اپنی اُمّت کو ڈرایا تھا۔

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نوح ؑکے بعد کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے ڈرایا نہ ہو----(جامع ترمذی،ج:2ح :118)

دجال کے لغوی معنی:

1.     کذاب یعنی بڑا جھوٹا۔

2.     مالدار اور خزانوں والا۔

3.     بڑا گروہ جو اپنی کثرت سے زمین کو ڈھانپ لے۔ (لسان العرب)

دجال کی قسمیں

       دجّال دو قسم کے ہیں : (1)چھوٹے (2) بڑے۔ چھوٹے دجّال بہت سے آئے اور آتے رہیں گے ، ہر جھوٹا نبی ، جھوٹا مولوی ، جعلی صوفی اورہر وہ شخص جو دوسروں کو راہ حق سے گمراہ کریں وہ دجّال ہے۔ہاں! بڑا دجّال صرف ایک ہے جو دعویٰ خدائی کرے گا۔ “ 

چھوٹے دجال

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔(بخاری، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ ،ح:3609)

کیا دجا ل انسان ہے؟

         بعض  علماء کرام نے انسان کہا ہے ۔(2) بعض نے شیطان کہا ہے ۔(3) اور بعض نے کہاں ہےانسان و جنات کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق ہے،اگر احادیث کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ دجّال مختلف الخلق یعنی دجّال مختلف مخلوقات  میں سےہوں گے۔ دجال کوئی ایک مخلوق نہیں ہوگا؛بلکہ یہ انسان اور غیر انسان سے بھی ہو سکتا ہے ۔

بیان القرآن میں ہے :

 ”دجل“ کے لفظی معنی دھوکہ اور فریب کے ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق ”دجال“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت بڑا دھوکے باز ہو ‘ جس نے دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ اور فریب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ چناچہ نبی اکرم نے جن تیس دجالوں کی پیدائش کی خبر دی ہے ان سے جھوٹے نبی ہی مراد ہیں۔ دجالیت کے اس عمومی مفہوم کو مدنظر رکھا جائے تو آج کے دور میں مادہ پرستی بھی ایک بہت بڑا دجالی فتنہ ہے۔(بیان القرآن، سورہ کہف :2 )

ہاں!دجال اکبر جو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہےاورجس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر مقام ”لُدّ“ میں قتل کریں گے، اس کا انسان  میں سے ہونا اغلب ہے ،اور یہی متاخرین کا راجح قول ہے ،جیسا کہ احادیث مبارکہ میں جو نشانیاں آپ ﷺ نے بتائی ہیں ان سے  ظاہر ہوتا ہےکہ دجال اکبر انسان میں سے ہوگا ۔

     آپﷺ نے فرمایا:”وہ بھاری بھرکم جسم، سرخ رنگت، گھنگھریالے بال اور ایک آنکھ سے نابینا ہے۔ اس کی آنکھ لٹکے ہوئے انگور کے دانے جیسی ہے۔" (صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث نمبر: 6709)

       نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: وہ آنکھوں سے نظر آ رہا ہوگا(حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے)۔اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان "ک ف ر"یعنی کفر لکھا ہوگا جو ہر مومن پڑھ لے گا، خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنہ الدجال و خروج عیسیٰ ،حدیث نمبر : 4077، الحاکم، حدیث نمبر : 8768)

بیان القرآن میں ہے :

''اس کے علاوہ دجال اور دجالی فتنے کا ایک خصوصی مفہوم بھی ہے۔ اس مفہوم میں اس سے مراد ایک مخصوص فتنہ ہے جو قرب قیامت کے زمانے میں ایک خاص شخصیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوگا''۔(بیان القرآن سورہ کہف)


ارطغرل  غازی

Saturday, May 22, 2021

قاری سید عثمان صاحب منصور پوری

قاری سید عثمان صاحب منصور پوری ؒ ،صدر جمیعۃ علماء ہند

بسم اللہ الرحمن الرحیم

إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ(بخاری و مسلم)

         یہ دنیا دارفانی  ہے اور ایک دن دنیا ومافیہا کی تمام چیزیں اختتام پذیر ہونے والی ہیں ،یہ دنیا ایسی ہے کہ جہاں موت و زیست کا فلسفہ ازل سے چلتا آرہاہے ، كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ برحق ازل فیصلہ ہے ،غم و اندوہ کی لہر دل میں اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کوئی اپنا پسندیدہ اور اللہ کا محبوب دنیا چھوڑ جاتا ہے اور خاص طور سے وہ نفوس قدسیہ جن کو اللہ تعالیٰ منتخب کرلیتے ہیں اور ان کو علوم و فنون سے بہر مند کردیتے ہیں ،انہیں مقدس  حضرات میں سے ام المدارس ، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذحدیث و کار گزارمہتمم دارالعلوم دیوبند جناب حضرت قاری سید عثمان صاحب منصور پوری ؒ ،صدر جمیعۃ علماء ہند شخصیت  ہیں ،ان کا سانحہ ارتحال ملک و ملت کے لئے عظیم خسارہے، حضرت قاری صاحبؒ، جن کو اللہ تعالیٰ نے ممتاز اہل علم میں شامل فرمایا ،آپ  کی جہاں بہت ساری خصوصیات تھیں، وہیں آپ کے خصوصیات میں سےغیر معمولی زہد و تقویٰ،اخلاق کی پاکیزگی ، علم و عمل کی گہرائی ،غورو تدبر ، امت کی بے پناہ فکرِاصلاح ،اصاغر کی تعمیر اور اکابر کی توقیرشامل ہیں ،حضرت قاری صاحب ؒ، کی پیدائش ضلع مظفر نگر کے قصبہ منصورپور میں 12 اگست 1944کوہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد 1965 میں دارالعوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ، 1966 میں شیخ القراء حضرت قاری حفظ الرحمن صاحبؒ اور قاری عتیق صاحبؒ سے تجوید و قرأت کا علم وفن حاصل کیااور ادیبِ اریب شیخ العرب والعجم مولانا وحید الزماں کیرانویؒ سے علم ادب میں کمال حاصل کیا ا ور امیر الہند حضرت مولانا سیّد اسعد مدنیؒ سے سلوک و معرفت کی تکمیل کی اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔اس کے علاوہ قاری صاحب ؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ‘ کے داماد بھی تھے۔1966ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ‘ کی صاحبزادی سے آپ کا عقد مسنون ہوا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے نکاح پڑھایا ۔
   تعلیمی سفر طے کرنے کے بعدمدرسہ قاسمیہ ( گیا) بہار میں 5 سال اور جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں گیارہ سال تدریسی خدمات انجام دیا ، حضرت قاری صاحب ؒ 1982 میں دارالعوم دیوبند سے وابستہ ہوئے اور تقریبا 40سال علمی خدمات انجام دئے، اور آخر تک طحاوی ،مشکوۃ جیسی اہم کتابوں کا درس دیتے رہے ، اس درمیان متعدد مرتبہ آپ کو ناظم تعلیمات و ناظم دارالاقامہ جیسی اہم ذمہ داریاں بھی  سپرد کی گئیں جن کو آپ نےبحسن خوبی انجام دیا ، حضرت قاری صاحب ؒ  ،کو 1999 میں دارالعلوم دیوبند کا نائب مہتمم مقررکیا گیا ، 2020 میں آپ کو کار گزار مہتمم بھی بنایا گیا ، نیز  2008سے تادم حال جمیعۃ علماء ہند کی صدارت پر فائز رہے ، 2010 میں حضر مولانا مرغوب الرحمن صاحب ؒ کے وصال کے بعد امارت شرعیہ ہند کے تحت امیر الہند رابع بھی منتخب کیا گیا ، فداء ملت  امیر الہند حضرت مولانا سیّد اسعد مدنیؒ  کے وصال کے بعد تنظیم جمیعت کے اصل پالیسی اور روایات کے مطابق اپنے مشن اور کاموں کو آگے بڑھا تے رہے ،حضرت قاری صاحبؒ نے ملک و ملت بچاؤ تحریک میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا  اور انہوں نے اس میں گرفتاریاں بھی دیں ۔ جمعیۃ علمائے ہند سے آخری دم تک  وابستگی رہی۔ حضرت قاری صاحب ؒ کی ایک عظیم خدمت یہ بھی ہے کہ آپ نے مرزائیت کی تردید کے لیئے کامیاب کوشیشیں کیں، اس عنوان پر آپؒ نے تقریری و تحریری دونوں خدمات انجام دئے،آپ ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم کے مقام عالی پر بھی فائز رہے ،
حضرت قاری صاحب ؒ کے صاحبزدگاں حضرت مولانا مفتی محمد سلمان  صاحب منصورپوری مفتی جامعہ قاسمیہ شاہی مردآباد ، حضرت مفتی عفان صاحب منصورپوری ناظم تعلیمات  جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ،دارالعلوم  دیوبند کے جملہ  اساتذہ کرام و طلباء عزیز اور دیگر اہل خانہ کو  عرش ایجو کیشنل اکیڈمی حیدرآباد، اورمفتیان و قاضیان اور ممبرانِ شاخ دارالقضاء امارت ملت اسلامیہ بیوت کالونی الکاپور حیدرآبادکی جانب سے تعزیت مسنونہ پیش خدمت ہے اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ ، جمیعۃ علماء ہند ، اور دارالعلوم دیوبند کو حضرت قاری صاحبؒ   کا نعم البدل عطاکرے، اللہ تعالیٰ ان کے قبر کو منور کردے ، اور ان کی مغفرت فرماکر اللہ جنت میں اعلیٰ مقام عطاکرے اور ان کے متعلقین و لواحقین اور بالخصوص انکے دونوں جید عالم دین   صاحبزدگاں اور انکی دختر نیک اختر کو صبر جمیل عطا کرے آمین ۔

الداعی الی الخیر والدعا

مفتی   محمدظہیر صادق حسامی ،ڈائر یکٹر عرش ایجو کیشنل اکیڈمی

مفتی محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی  و حسامی


شائع کردہ : شاخ دارالقضاء امارت ملت اسلامیہ بیوت کالونی الکاپور حیدر آباد