بسم اللہ الرحمن الرحیم
ناریل توڑ کر گیٹ یا کرکیٹ وغیرہ کا افتتاح کرنا
سوال :۔کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین
مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید ایک مسجد کا امام ہے اور علاقہ کے حالات کے پیش نظر
سیاست اور سیاسی لوگوں سے بھی تعلق ہے، جمعہ کی نماز کے بعد علاقہ کے نگر سیوک نے ایک
گیٹ کا افتتاح ناریل توڑکر کیا جو یہاں کا عام رواج ہے، اس کے بعد نگر سیوک نے زید
کو ناریل توڑنے کے لئے بلایا، زید وہیں موجود تھا اور زید کو اس کا پہلے سے علم نہیں
تھا کہ اس کے ہاتھ سے ناریل تڑوایا جائے گا، زید نے ناریل توڑنے سے انکار کیا؛ لیکن
نگر سیوک کے اصرار پر زید نے وقتی طور پر حالات کے پیش نظر دل کی کراہت کے ساتھ ناریل
توڑا اور زید کو اب تک اس ناریل کے احکام کے متعلق کوئی علم نہیں؛ لہٰذا اس صورت میں
زید کے لئے کیا حکم ہے؟ کیا زید کا یہ عمل حرام ہے؟ نیز ناریل توڑنے کا کیا حکم ہے؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ناریل توڑنا ہندوؤں
کی ایک مذہبی مخصوص رسم ہے، کسی مسلمان کے لئے کسی بھی حالت میں اس کا ارتکاب قطعاً جائز
نہیں ہے۔ سوال میں مذکورہ امام صاحب کو دینی حمیت وجرأت سے کام لیتے ہوئے ناریل توڑنے
سے صاف منع کردینا چاہئے تھا، جن لوگوں نے ان پر ناریل توڑنے کے لئے دباؤ ڈالا ہے وہ
بھی ان کے ساتھ گناہ میں شامل ہیں، امام صاحب سمیت ان لوگوں کو اس گناہ سے توبہ کرنی
لازم ہے۔
عبد اللّٰہ
بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ ا: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي
داؤد، الباس / باب لبس الشہرۃ ۲؍۲۵۱ رقم: ۴۰۳۱، مشکوۃ المصابیح
۳۷۵)
وفي الفتاویٰ
الصغریٰ: الکفر شيئٌ عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً حتی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر ثم
قال: والذي تحرر أنہ لا یفتی یکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان في کفرہ
اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ۔ (رسم المفتی ۸۳) فقط واللہ تعالیٰ
اعلم
احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۸؍۲؍۱۴۲۴ھ ( کتاب النوازل ،ج:۱ص:۲۷۰۔)