(شو سل میڈیا Sosyal medya)
اب یہاں سے ہم شوسل میڈیا کاتعارف اور اس کے مسائل پر کلام کرتے ہیں ایک وقت تھا کہ پرنٹ میڈیا پر چند اہل ثروت کا مکمل قبضہ تھا اس پر نہ تو ہر کسی کی بات چھپتی تھی اور نہ ہر کسی کی با ت سنی جاتی تھی ایک غریب اپنے ظلم وستم کو دنیا کے سامنے رکھ بھی نہیں سکتا تھا لیکن شوسل میڈیا نے ان ظالموں کی اس جاگیرداری کو ختم کر دیا اور ہر کسی کو مکمل طور پر اپنی بات بیان کرنے کی آزادی دی اب اس وقت ہر کسی کا اپنا ایک اکاؤنٹ بناہواہے وہ اگرچہ تعلیم یافتہ نہ ہو اور انگلش سے ناواقف ہو لیکن اس کے بھی فیس بک اکاؤنٹ بناہواہو تا ہے،
اوسلو، ناروے میں بین الاقوامی تنظیم’’وی آر سوشل‘‘کے سرو ے جنوری2015 کے مطابق دنیا کی کل آبادی اعدادوشمار کے 7ارب 20کڑور سے تجاوز کر چکی ہے۔دنیا میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 3ارب ہے جو کہ باقاعدہ استعمال کرتے ہیں۔ دنیا میں 3ارب سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں۔سوشل میڈیا ایپلی کیشن میں فیس بک 1ارب 36 کڑور صارفین ہیں جبکہ50کڑور لوگ ٹوئٹر(twitter) استعمال کرتے ہیں۔
رہی بات سوشل میڈیا پر جھوٹ اور گالی کی تو اس میں ہماری خود کی تربیت کا قصور ہے۔ ہمارے معاشرے کی حقیقی زندگی میں بھی جھوٹ اور گالی چل رہی ہے تحقیق تو بہت دور صرف جائزہ ہی لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ اس دور فتن میں سو میں دوچار ہی ملیں گے جس نے اپنی زندگی کو صدق کلامی سے گزارنے کا عادی بنالیا ہے ورنہ تو بد کلامی،فحش گوئی،جھوٹ،گالی گلوج اپنی انتہاء کو پہونچ گئی ہے جبکہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے، ایک حدیث میں ہے کہ مؤمن تو سب کچھ ہو سکتاہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا، بخاری کی حدیث میں ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب انکے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، بلکہ یہ بات کسی سوشل میڈیا والے پر مخفی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا میں جھوٹ اور سچ کی اتنی آمیزش ہے کہ اس کو کبھی کبھی الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آدمی سمجھ نہیں سکتا ہے کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ؟
اگرچہ سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہیں اور اس کا مثبت استعمال آپ کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچاسکتا ہے،سالوں کے کاموں کو مہینہ میں،مہینوں کے کاموں کو ہفتہ میں،ہفتوں کے کاموں کو دن میں اور دنوں کے کاموں کو گھنٹہ میں کراسکتا ہے، لیکن دوسری طرف اس کا استعمال معاشرے میں تنہا بھی کرسکتاہے جہاں یہ سیاست، کاروبار، پیداوار، تعلیم، صحافت،ٹائم سیونگ اور صحت کے لئے مفید ہے وہیں یہ حقیقی رشتوں سے دوری اور ان کے ٹوٹنے کا بھی سبب ہے،بے حیائی اور فحاشی کے پھیلنے کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
یوں تو شوسل میڈیا بہت سارے ہیں، تقریبا ۵۲ سے زائد شوسل میڈیا ہیں ہم ان میں سے جومشہور اور کثیر الاستعما ل ہے انہیں کااختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے متعلق مسائل کا ذکر کریں گے۔
(فیس بکFasebook)
فیس بک کا بانی امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کا طالب علم ’’مارک زکر برگ‘‘ہے، جس نے2004 ء کے آغاز میں اس ویب سائٹ کی بنیاد رکھی۔ شروع میں اس ویب سائٹ کا استعمال یونیورسٹی کے اندر صرف طالب علموں تک محدود تھا، بعد میں ویب سائٹ کا نیٹ ورک بوسٹن کی دوسری یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔ بالآخر 2006ء کے آخر تک اس کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیل گیا۔
درحقیقت فیس بک کو بنانے کا مقصد لوگوں کے درمیان آپسی جان پہچان اور سماجی رابطوں کو بڑھانا تھا،لیکن اس کے استعمال کرنے والوں نے رفتہ رفتہ بلا کسی روک ٹوک کے ہر قسم کے رطب ویابس میں کرنے لگے،تاہم یہ اچھوں کیلئے اچھا اور بروں کے لئے برا ہے، اس کے استعمال کرنے والے جس مقصد کے پیش نظر استعمال کریں گے اسکا حکم بھی اسی طرح ہو گا اگر جائز کاموں میں کیا ہے، تو بھر وہ جائز ہوگا،ورنہ حرام ہو گا۔
(واٹس ایپ Whatsapp)
یہ دنیا کی مقبول ترین موبائل ایپ ہے جس کو ہم فیس بک کا چھوٹا بھائی کہتے ہیں، 2009میں یاہو کے دو سابقہ ملازمین ’’بائن ایکٹن اور جان کوم‘‘ نے ایجاد کیاروزاول ہی سے یہ ایپ لوگوں کے درمیان مقبول ہوتا چلاگیااور فیس بک کے بعد سوشل میڈیامیں واٹس ایپ ہی سے زیادہ تر لوگ منسلک ہیں تقریباروزانہ ۰۴ ارب سے زائد میسجز کو یہ ایپ پوری دنیا میں منتقل کرتی ہے۔،
(ٹوئٹر Twitter)
یہ ایک مائیکرو وبلاگنگ ویب سائٹ ہے جو تمام سوشل میڈیا میں زیادہ قابل اعتمادہے، جس میں اپنی رائے کا اظہار ایک سو چالیس حروف میں کرسکتے ہیں۔
(ٹمبلر Tumblar)
اس کو ’’ڈیوڈکارپ‘‘نے بنایا اور جب لوگوں میں مقبولیت ہو نے لگی تو ’’یاہو‘‘ کمپنی نے اس کو خرید لیا۔
(انسٹا گرام Instagram)
یہ بھی سوشل میڈیا کا ایک حصہ ہے اسمیں فوٹو اور ویڈیو کو چند خصوصیات کے ساتھ شےئرنگ کر سکتے ہیں اس ایپ کو 2010میں منظر عام پر لایا گیا اور 2012میں فیس بک کمپنی نے خرید لیا۔