بسم اللہ الرحمن الرحیم
(موبائل کی خرید وفروخت )
سوال : موبائل کی خریدوفرخت کرنا کیسا ہے ؟
جواب : چونکہ مو بائل کا استعمال مباح ہے اس لئے اس کی خرید وفروخت بھی درست ہے ۔ ہاں! استعما ل کرنے والا اسکو غلط کاموں میں استعمال کر رہا ہے تو اس کا گنا ہ استعما ل کرنے والے پر ہو گا ۔
سوال : گارنٹی یا وارنٹی کے شرط پر موبائل کی خرید وفروخت کرناکیساہے؟
جواب : اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ خرید وفروخت درست نہ ہوں کیو نکہ اس میں گارنٹی یا وارنٹی کی شرط شرط فاسد ہے اور شرط فاسد سے خریدوفروخت فاسد ہو جاتی ہے البتہ اگر وہ شرط متعارف ہو اور اہل زمانہ کا تعامل ہو تو وہ خرید وفروخت درست ہوتا ہے ’’کل شرط لایقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لاحد المتعاقدین یفسد الا ان یکون متعارفا لان العرف قاض علی القیاس(ھدایہ ۳ / ۴۳ شاملہ )
اس لئے موبائل یا سامانوں کو گارنٹی یا وارنٹی کے ساتھ بیچنا اصل میں ناجا ئزہے لیکن تعامل ناس کی وجہ سے جائز ہے ۔ (کذا فی جدید فقہی مسائل ۱ /۲۶۰ )
سوال : بعض موبائل کمپنی موبائل پرایک سال یا چھ ماہ کی گارنٹی یا وارنٹی دیتی ہے یعنی ایک سال یا چھ ماہ کے اندر موبائل خراب ہو جائے تو کمپنی بلامعاوضہ موبائل کو درست کر دیگی یا اسکی جگہ دوسرا موبائل کسٹمر کو واپس کر دیگی ؛اس لئے دوکاندار کو اس بات کی تا کید کرتی ہے کہ موبائل بیچتے وقت اس پر تاریخ ڈالدے،تاکہ پتہ چل جائے کہ موبائل خرید کر کتنی مدت ہوئی ہے ؛لکن دوکاندار اپنے پہچان کے کسٹمر کو موبائل بیچتے وقت اس پر تاریخ ہی نہیں ڈالتا ہے، تاکہ ایک سال یاچھ ماہ کے بعد بھی خراب ہو جا ئے تونئی تاریخ ڈالکر کمپنی کو موبائل بھیج دیاجائے کیا اس طرح دوکاندار کا کرنا درست ہے ؟
جواب : اس طرح کرنا بالکل جائز نہیں ہے ،یہ کمپنی کو دھوکہ دینا ہوا، اورآپ ﷺ نے فرمایا : جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔
سوال : فری سروس کی شرط پر موبائل بیچنا کیسا ہے ؟
جواب : فری سروس کی شرط شرط فاسد ہے اور شرط فاسد سے خریدوفروخت فاسد ہو جاتی ہے البتہ اب یہ شرط متعارف ہوچکاہے، اس لئے اس شرط کے ساتھ خرید وفروخت درست ہوگا ۔( اسلام اور جدید معاشی مسائل ۴/ ۱۰۵ )
سوال : نقد میں کم ریٹ سے اور ادھار میں زیادہ ریٹ سے بیچنا کیسا ہے ؟
جواب : جائز ہے لیکن کم روپیے میں بیچ کر روپیے ادا کرنے میں تاخیر ہو نے کی صورت میں زیادہ روپیے وصول کرنا سود ہے ( ،اس مسئلہ کی مکمل تفصیل اسلام اور جدید معاشی مسائل۳/ ۹۴ میں ہے)
سوال : کسی دوکاندار کے پاس مطلوبہ موبائل نہ ہونے کی صورت میں ایڈوانس رقم دے اور کہے بھا ئی مجھے اس قسم کا موبا ئل لا دیں تو کیا درست ہے ؟
جواب :رقم کی ادائیگی نقد ہو اور مال ادھار ہو اس کو فقہ میں بیع سلم کہتے ہیں اور بیع سلم جائز ہے لیکن بقول علامہ مر غینانی سات شرطوں کے ساتھ کہ سامان کی جنس اور نوع کی وضاحت کردی جا ئے سامان دینے کی مدت بھی فیکس ہو جا ئے مثلاً : وہ موبا ئل کس کمپنی کا ہو گا اور اس موبا ئل کانمبر کیا ہو گا اور اس کو کس تاریخ تک دیگا وغیرہ۔ وقال لایصح السلم عند ابی حنیفۃ ؒ الا بسبع شرائط...........(ھدایۃ ۳ /۷۳ مکتبہ شاملہ)
سوال : مکمل رقم ایڈوانس میں دکاندار کو نہیں دیابلکہ کچھ رقم ایڈوانس میں دیکر خریدنا کیسا ہے ؟
جواب : یہ بھی بیع سلم ہے اور بیع سلم میں مکمل رقم پہلے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اس طرح خرید وفروخت درست نہیں ہونا چا ہیے ،لیکن آدھی رقم ایڈوانس میں دیکر خریدو فروخت کا رواج اور تعامل ہو چکا ہے اس لئے تعاملِ ناس کی وجہ سے کچھ رقم ایڈوانس میں دیکر خریدنا جائز ہو گا ۔ وقال لایصح السلم عند ابی حنیفۃ ؒ الا بسبع شرائط.........(ھدایۃ ۳ /۷۳ مکتبہ شاملہ)
سوال: چرایا ہوا موبائل خریدنا اور بیچنا کیسا ہے ؟
جواب : اگر معلوم ہو جائے کہ یہ موبائل چوری کا ہے تو اسے ہر گز خریدنے کی اجازت نہیں ہے، اس کا خرید نا بیچناسب حرام ہے ،( ماخوذ فتاوی محمودیہ ۱۶ /۸۷)
سوال : خراب موبائل کو بتائے بغیر بیچ نا کیسا ہے؟
جواب: خرابی بتائے بغیر کسی سامان کا بیچنا درست نہیں یہ دھوکا دینا ہوا اگر کسی نے اس طرح موبا ئل دھو کا دیکر بیچ دیا تو لینے والے کو اختیار ہو گاکہ مکمل رقم میں موبائل رکھ لے یا واپس کردے (البحر الرئق ۶/۳۶ شاملہ)