Friday, November 24, 2017

کافر کے نیک اعمال


بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال :اللہ اچھے اور نیک غیر مسلموں کے ساتھ آخرت میں کیا سلوک کریگا؟ کیا انکے اعمال اخروی اعتبار سےکچھ فائدہ ہونگے؟
جواب وباللہ التوفیق:سوال مذکورہ میں کافروں  کےاچھے اعمال مثلا:  لوگوں کیلئے پانی کاانتظام کردینا یا غریبوں کو کھانا کھلانا وغیرہ وغیرہ کا ثمرہ  کچھ ملے گا یا نہیں ۔
یہ وہ سوال ہے جو ہم میں سے اکثر لوگ کرتے ہیں ،اس سوال کا بے تحقیق اور قرآن و آحادیث کے خلاف ایک جواب تو وہی ہےجس کوعموماًوہی لوگ دیتے رہتے ہیں جوکفر والحادکی آغوش میں رہتے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل کریگا کیونکہ اللہ ستر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، وہ عادل ہے ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ جوابات عموما ایسے لوگوں کی طرف سے آتا ہے، جن کے غیر مسلموں کے ساتھ ”اچھے تعلقات“ ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگی کے اکثراوقات ”غیر مسلموں“ کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اور ان کے بہت سے دنیوی ”مفادات“ انہی ”اچھے غیر مسلموں“ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔جو مذہب اسلام کےجزئی وکلی تمام مسائل کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں،جس کے نتیجہ میں وہ شریعت اسلامیہ سے دور ہوتے ہوتے بعض دفعہ ایما ن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھ تے ہیں ،
بس امت  کے سامنے مسئلہ مذکور میں راہ حق واضح ہوجائے اسی مقصد کے پیش نظر حضرت مولانا ضیاء الحق صاحب صدیقی ،مہتمم مدرسہ عربیہ قاسم العلوم چند گڑھ کے ایماء وحکم پر عاجز نے بڑے ہی عجلت میں وافی وشافی عبارتوں کو دلائل نقلی  اورعقلی کےساتھ مزین کرتے ہوئےسپرد  قرطاس کیا ہے ،اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ بناکر کفر والحاد کی گھٹابادلوں کو صاف و شفاف فرمادے آمین۔

(دلائل نقلیہ)

سب سے پہلے یہ ذہن میں رہنی چاہیے  کہ اعمال کی قبولیت کا معیار ایمان پر ہے جس کے زندگی میں ایمان ہوگا وہ کوئی بھی  خیر کریں اللہ تعالیٰ انکے عمل  قبول کرلیتے ہیں ،اورکفر وشرک کے ساتھ کتناہی اچھا عمل کرے اللہ  کے نزدیک مقبول نہیں ہوتاہے۔
”وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (سورة آل عمران، رقم الآیة: ۸۵)
جو شخص اسلام کے علاوہ اور کوئی دین کی اتباع کیا تو اللہ تعالیٰ ہرگزاسے قبول نہیں کریں گے ،اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں (یعنی جہنم میں جائیں گے )
حضرت عائشہ نے ایک مرتبہ پیارے نبی ﷺ سے اسی قسم کا ایک سوال کیا اور آپ ﷺ نے یہی جواب ارشاد فرمایا :
 عن عائشة قالت: قلت یا رسول اللہ ابن جدعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین(مسلم کتاب الایمان)
ترجمہ:حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  ﷺ ابن جدعان جو زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمہ کرتاتھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا،تو کیا اسے یہ اعمال فائدہ دیگا؟  آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو نفع نہیں دیگا کیونکہ اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ائے میرے رب قیامت کے دن میرے گناہ کو بخش دے،
امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں،
لکونہ کافرا وھو معنیٰ قولہ ﷺ لم یقل رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین۔۔۔۔۔ وقال القاضی عیاض وقد انعقد الاجماع علی ان الکفار لاتنفعھم اعمالھم ولایثابون علیھا بنعیم ولا تخفیف عذابا لکن بعضھم اشد عذابا من بعض بحسب جرائھم(نووی علی مسلم )
امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ اس (جدعان ) کے کافر ہونے کی وجہ سے(انکے اعمال) کوئی فائدہ نہیں دیگا یہی مطلب ہے پیارے نبی ﷺ کا قول کا لم یقل رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین "قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ : "اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت کم یا زیادہ عذاب ملے گا،"
تاہم بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر اچھے اعمال کریں تو اللہ تعالیٰ اس کار خیر کابدلہ دنیاں ہی میں کسی نہ کسی شکل میں دیدیتے ہیں تاکہ باری تعالیٰ پر ظلم وغیرہ کی کوئی نافہم نسبت نہ کردے۔چنانچہ حکیم بن حزام نے ایک مرتبہ نبی ﷺ دریافت کیاکہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم  زمانے جاہلیت یعنی کفر کی حالت میں بہت سارے کار خیر کئے ہیں ان اعمال کا کیا ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا: أسلمت علی ما أسلفت یعنی انہیں اعمال خیر کی وجہ سے اللہ نے تجھے ایمان کی توفیق دی ہے  ۔
محمد بن جریرطبری رحمہ اللہ کہتے ہیں
مَن عمل عملا صالحًا في غير تقوى - يعني : من أهل الشرك - أُعطي على ذلك أجراً في الدنيا : يصل رحمًا ، يعطي سائلا يرحم مضطرًّا في نحو هذا من أعمال البرّ ، يعجل الله له ثواب عمله في الدنيا ، ويُوسِّع عليه في المعيشة والرزق ، ويقرُّ عينه فيما خَوَّله ، ويدفع عنه من مكاره الدنيا ، في نحو هذا ، وليس له في الآخرة من نصيب . " تفسير الطبري "
"اگر اہل شرک میں سے کوئی شخص نیکی کرے تو اسے دنیا ہی میں اجر دے دیا جاتا ہے، مثلاً : صلہ رحمی کرے، سائل کو دے ، یا کسی لاچار پر ترس کھائے، یا اسی طرح کے دیگر اچھے کام کرے،تو اللہ تعالی اسکے عمل کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اور اس عمل کے بدلے میں معیشت، اور رزق میں فراخی ڈال دیتا ہے، اسکی آنکھوں کو نم نہیں ہونے دیتا، اور دنیاوی تکالیف دور کردیتا ہے،وغیرہ وغیرہ، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے(تفسیرطبری 15: 265)
 وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهٝ ۚ اِلَيْنَا مَرْجِعُـهُـمْ فَنُنَبِّئُـهُـمْ بِمَا عَمِلُوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (23) نُمَتِّعُهُـمْ قَلِيْلًا ثُـمَّ نَضْطَرُّهُـمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ (24)
اور جس نے کفر کیا پس تو اس کے انکار سے غم نہ کھا، انہیں ہمارے پاس آنا ہے پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ انہوں نے کیا کیا ہے، بے شک اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ہم انہیں تھوڑا سا دنیوی زندگی عیش میں دے رہے ہیں پھر ہم انہیں سخت عذاب کی طرف گھسیٹ کر لے جائیں گے۔
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام88)

یہ اللہ کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں جسے چاہے اس پر چلاتا ہے، اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو البتہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جو کچھ انہوں نے کیا تھا۔
اس آیت کریمہ میں کہا گیا ہے کہ اگر اوپر کے مذکور انبیا ءبھی شرک کریں تو ان کے نیک اعمال سب کے سب بیکار ہوجاتے جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان انبیاء کرام کے متعلق ہیں تو پھر عام آدمی اگر شرک کریں تو انکے اعمال خیر کا کیا حال ہو گا اس آیت سے بخوبی سمجھاجارہاہے
تفسیر طبری میں ہے
لبطل فذهب عنهم أجر أعمالهم التي كانوا يعملون ، لأن الله لا يقبل مع الشرك به عملا (تفسير الطبري).
حضرت انس  بن مالک کی حدیث جس کو امام مسلم نے نقل کیا ہے اسمیں مکمل صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ کافروں کو دنیاہی میں بدلا دیدیاجاتاہے
عن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا عَمِلَ حَسَنَةً أُطْعِمَ بِهَا طُعْمَةً مِنْ الدُّنْيَا ، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَإِنَّ اللَّهَ يَدَّخِرُ لَهُ حَسَنَاتِهِ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُعْقِبُهُ رِزْقًا فِي الدُّنْيَا عَلَى طَاعَتِهِ (مسلم حدیث نمبر 2808)
  انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتاہے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، جبکہ مؤمن کیلئے اسکی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کی جاتی ہیں، اور دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق بھی عنایت کیا جاتاہے۔
اوردوسری روایت میں ہے
عن قتادة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطى بها في الدنيا ويجزى بها في الآخرة وأما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم تكن له حسنة يجزى بها (صحيح مسلم   » كتاب صفة القيامة والجنة والنار   » باب جزاء المؤمن بحسناته في الدنيا والآخرة وتعجيل حسنات الكافر في الدنيا)
اللہ تعالی کسی مؤمن کی ایک نیکی کوبھی کم نہیں کریگا اور اسکے بدلے میں دنیا میں بھی دیگا اور آخرت میں اسکی جزا عنائت کریگا، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اسکے لئے کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا بھی دی جائے ۔
جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے ہر اردے میں مختارکل ہیں اسی طرح ان کفاروں کو دنیا میں بدلہ  دینابھی انکی مشیت پر موقوف ہےاللہ تعالی نے یہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں فرمایا ہے:  مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ (الإسراء/18)
شارحین احادیث کی عبارتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اعمال انسانی دوطرح کے ہیں (1) وہ اعمال خیر جس میں نیت شرط نہیں ہے مثلا،صلہ رحمی ،غریب کی مدد اور بھوکے کو کھانا کھلانا وغیرہ،اگر کافروں نے  ان جیسے اعمال خیر کئے ہیں تو اس کابدلہ کسی نہ کسی حیثیت سے اللہ تعالیٰ اپنی مشیت وچاہت سے دنیاہی میں عطا کردیتے ہیں ،اور جن اعمال میں نیت کےشرط ہے ان میں پھر کافروں کوکچھ نہیں ملتا ہے کیونکہ وہ عمل نیت شرط ہونے کی وجہ سے ناقص ہوگیا،
امام نوی ؒ فرماتے ہیں:
وصرَّح في هذا الحديث بأن يطعم في الدنيا بما عمله من الحسنات أي : بما فعله متقرباً به إلى الله تعالى مما لا يفتقر صحته إلى النية ، كصلة الرحم ، والصدقة ، والعتق ، والضيافة ، وتسهيل الخيرات ، ونحوها ( شرح مسلم ) .
اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسے دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے میں کھلا پلا دیا جاتا ہے، یعنی: وہ کام جو اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کئے، اور انکی درستگی کیلئے نیت کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے : صلہ رحمی، صدقہ، غلام آزاد کرنا، ضیافت کرنا، اور دیگر خیرات وغیرہ کرنا
وأما ما كان من أعمال الدين وتشترط فيه نية التقرب ، كالحج والعمرة والدعاء ، فهذا لا يؤجر عليه الكافر في الدنيا ولا في الآخرة ؛ لكونه باطلاً ، لتخلف شروط قبوله وهي : الإسلام والإخلاص والمتابعة ، ثم إن الكفر يحبط الأعمال فلا يستفيد منها صاحبها يوم القيامة شيئا(شرح مسلم)
اوپر کی تمام قرآنی آیتیں اوراحادیث مبارکہ نیز ائمہ تفاسیر نیز شارحین احادیث کی عباروں سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر اچھاکام کرتاہے ؛تو اللہ تعالیٰ اپنے  صفت عدل کی وجہ سے انکو دنیا ہی میں بدلہ عنایت فرمادیتے ہیں ، کافر اگر متعصب یا مغرور نہ ہو اور اس کی کوئی نیکی، کوئی ایک ادا رب تعالیٰ کو پسند آ جائے تو اسے بلا کسی ظاہری سبب کے بھی ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں۔ پھر یہ ایمان کبھی تو ظاہر ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک صحابی رسول نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایام جاہلیت میں 300 بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تو میری اس نیکی کا اجر مجھے کیا ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں اسی کار خیرکے بدلے اسلام لانے کی توفیق دی گئی، نیزاسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے نیک دل غیر مسلموں کے ایمان کی کسی کو خبر نہ ہو۔ یا تو اس وجہ سے کہ انہیں موت سے قبل ہی ایمان لانے کی توفیق ملی ہو، جس پر بندہ اور اس کا رب ہی واقف ہوں،اس طرح یہ بھی ایمان والوں کی  صف میں قیامت میں کھڑا ہوجائیگا،اگر اس موقعہ پر ایک حدیث رسول کا مفہوم بھی ذہن میں رکھ لیاجائے تو انشاء اللہ مضمون سمجھنے میں کسی قسم کی الجھن نہیں ہو گی ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ حشر کے دن بہت سے ایسے لوگ جو ساری زندگی کفر میں گزار کر مرے ہوں، مسلمانوں کی صف میں نظر آئیں گے اور بہت سے نام کے مسلمان  کافروں کی صف میں نظر آئیں گے۔
اب اخیر میں ہم دارالعلوم دیوبند کا ایک جوابی فتویٰ بھی نقل کر دیتے ہیں جس میں اسی قسم کا ایک سوال کیا گیا ہے اور ارباب فتاویٰ نے وہی جواب دیا ہے جس کو عاجز نے اوپر رقم کیا ہے ۔

فتویٰ دارالعلوم دیوبند

اسی نوعیت کا سوال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک رشتہ دار سے متعلق جن کی موت کفر پر ہوئی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ یا رسول اللہ زمانہٴ جاہلیت میں (یعنی بحالت کفر) انہوں نے بہت سارے نیک کام کئے تھے کہ وہ فقراء کو کھانا کھلاتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے وغیرہ تو کیا ان کے یہ نیک اعمال کل قیامت کے دن انھیں فائدہ دیں گے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں ان کے نیک اعمال قیامت کے دن انھیں کچھ نفع نہ دیں گے، کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت فرما یعنی وہ بعث بعد الموت (آخرت) پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اور قرآن باک میں ہے کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں ہوگا ”وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (سورة آل عمران، رقم الآیة: ۸۵) 
عن عائشة قالت: قلت یا رسول اللہ ابن جوعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین قال الشارح: أي لم یکن مصدقا بالبعث ومن لم یصدق بہ کافر ولا ینفعہ عمل (فتح الملہم شرح مسلم- تتمة کتاب الإیمان- باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل ۲/۲۵۷/ ط اشرفی)مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی نیک عمل کی مقبولیت کے لیے ”ایمان“ کا ہونا اولین شرط ہے، اللہ تعالیٰ پر، پیغمبروں پر، کتاب اللہ پر اور قیامت کے دن وغیرہ پر ایمان لائے بغیر انسان خواہ کتنے ہی نیک اعمال کرلے اور کتنی بھی عبادت کرلے آخرت میں ان کا کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ ہی کوئی صلہ ملے گا بلکہ وہ خسارہ میں ہوگا، کیونکہ اعمالِ صالحہ کی مثال جسم کی طرح ہے اور ایمان کی مثال روح کی طرح ہے جس طرح روح کے بغیر جسم بے کار ہے، اسی طرح ایمان کے بغیر اعمالِ صالحہ بے سود ہے، آخرت میں کچھ کام نہ دیں گے،
 عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجیء الأعمال یوم القیامة، -إلی أن قال- ثم یجیء الإسلام، فیقول: یا رب، أنت السلام، وأنا الإسلام، فیقول اللہ تعالی: إنک علی خیر، بک الیوم آخذ، وبک أعطی، قال اللہ تعالی: وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (تفسیر ابن کثیر، سورة آل عمران: ۲/۲۶/ زکریا دیوبند)
 البتہ ایسے کفار جو دنیا میں نیک کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں کسی نہ کسی شکل میں عطا کردیتے ہیں جیسے کہ بسا اوقات ان کے نیک کاموں کے صلہ میں انھیں ایمان کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں اور کبھی تو دنیا میں ان کے نیک اعمال کے عوض لوگوں میں ان کا ذکر خیر عام کردیتے ہیں کہ لوگوں میں ان کے حسنِ کارکردگی کا چرچا عام ہوجاتا ہے اور کبھی ان کی روزی میں فراخی اور کشادگی پیدا کرتے ہیں۔
 قال في فتح الملہم تحت حدیث حکیم ابن حزام أسلمت علی ما أسلفت: قال المازري: إن الکافر لا یصح منہ التقرب فلا یثاب علی طاعتہ لأن من شرط المتقرب أن یکون عارفا لمن یتقرب إلیہ والکافر لیس کذلک، فالعلماء حملوا ہذا الحدیث علی وجوہ منہا إنک اکتسبت بذلک ثناء جمیلاً فہو باق لک في الإسلام أ إنک ببرکة فعل الخیر ہدیت إلی الإسلام لأن المبادی عنوان الغایات أو إنک بتلک الأفعال رزقت الرزق الواسع (فتح الملہم، تتمة کتاب الإیمان، باب حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ: ۲/۸۷/ اشرفی دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

(دلائل عقلیہ)

(1)مذہب اسلام میں ایمان کی حیثیت ایساہی جیساکہ انسان کیلئےروح کہ روح کے بغیر انسان کےپاس تمام اعظا ہوتے ہیں ،لیکن یہ اعضا رہتے ہوئے بھی انسان کیلئے کوئی فائدہ مند نہیں ہوتا ہے اسی طرح ایمان کے بغیر انسان کےاچھے اعمال کاوجود تو ہوسکتاہے لیکن وہ اعمال انسان کیلئے اخروی اعتبار سے کوئی فائدہ مند نہیں ہوتا ،
(2) دنیاکی حکومت نے بھی اپنا بنیادی قانون بنارکھا ہے ، اگر کوئی شخص اس بنیادی کلی قانون کا انکار کردے اور ساتھ ہی حکومت کے بہت سے دوسرے جزوی قانون کو مان لے تو اس شخص کے قانون کلی کے انکار کرنے کی وجہ سےحکومت اسے مجرم قرار دیتی ہے اور اسکے جزوی قانون ماننے کا کوئی فائدہ تودرکنار حکومت اسکی جانب التفات بھی نہیں کرتی  اور اسے مجرم گردانتی ہے،بس احکم الحاکمین کے یہاں بھی ضابطہ ہےکہ جوشخص اسکے قانون کلی (ایمان ) کا اقرار نہیں کریگا تو اس کااللہ کے قانون جزئی (اعمال خیر)پر عمل کرنا فائدہ مند نہیں ہوگالیکن چونکہ اللہ تعالیٰ تمام عادلوں کا عادل ہے اسلئے اس کے عمل خیر کو باالکلیہ کاالعدم نہ قرار دیتے ہوئے دنیوی اعتبار سے کچھ نہ کچھ مفید بنا دیتاہے ۔
(3)کیوں نہ ہم موجودہ حکومت کے بنے ہوئے قانوں ہی کی روشنی میں اس مسئلہ کو سمجھ لیں ،حکومت ہند کے آئین میں بہت سے کام ایسے ہیں جن کیلئے قانون بنے ہوئے ہیں مثلا: پاسپورٹ (Passport) ہی کو لے لیں اگر کسی کو بنانا ہو تو انہیں برتھ سرٹیفکٹ (Burth Certificate )الکشن کارڈ(Auction card)راشن کارڈ(Ration card )آدھارکارڈ(Base card)وغیرہ وغیرہ جمع کرناپر تا ہے اور ان کاغذوںمیں سب سے اہم اور Important برتھ سرٹیفکٹ ہے اب اگر کوئی شخص سارے کاغذات جمع کردیں اور صرف Burth Certificate جمع نہ کریں تو ان سے یہ کہکر واپس کردیا جاتا ہے کہ آپ نے اصلی کاغذ ہی نہیں لا یاہے ،اس لئے آپکا کام نہیں ہوگا ،جب تک Burth Certificate لیکرنہ آئیں،گویا صرف ایک کاغذنہ رہنے پر سارے کاغذات بیکا رہوگئے ٹھیک اسی طرح جنت کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیئے ایمان  کی ضروت ہے اب اگر کسی نے ایمان کی سرٹیفکٹ  عند اللہ نہ پیش کی تو اس کے دوسرے کاغذات (اعمال وغیرہ) جہنم سے نہیں بچا سکتی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ رحیم وکریم ہیں اور عادل ،و قدر دان ہیں اس لئے اس کے اعمال کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا ہی میں عنایت فرمادیں گے۔
خلاصہ کلام:نیک اور اچھے کافروں کا بدلہ دنیا میں ہی کسی نہ کسی طرح دیدیاجاتاہے ،یا اسی کار خیرکے بدلے اللہ تعالیٰ کبھی اسےاسلام کی توفیق دیدیتے ہیں اور اس طرح وہ ایمان والا ہوکر جنت کے مستحق بن جاتے ہیں ۔
فقط واللہ اعلم باالصواب

مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل
ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت

کافر جہنم میں ہمیشہ کیوں رہے گا



سوال : آج کل جدید تعلیم یافتہ کی جانب سے اکثر وبیشتر یہ عقلی بے بنیادسوال کیا جاتا ہے کہ کافروں کو جہنم میں سزا ہمیشہ ہمیش کیوں دی جائیگی جبکہ اس نے جرم وقت محدود میں کیا ہے تو سزا بھی محدود وقت ہی میں ہونی چاہیے؟
جواب:اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جہنم نہ فنا ہو گی اور نہ ہی ختم ، اور جہنم سے صرف توحید پرست گناہ گار لوگ ہی  اللہ کے حکم سے باہر  نکلیں گے ، جبکہ کافر اور بے ایمان لوگ  اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔:
 قال الطحاوي: والجنة والنار مخلوقتان، لا تفنيان ولاتبيدان .(عقیدۃ الطحاوی)اور جنت وجہنم اللہ کی مخلوق ہیں جوکبھی فنا نہیں ہونگے،
وقال ابن حزم في كتابه الملل والنحل: اتفقت فرق الأمة كلها على أن لا فناء للجنة ولا لنعيمها، ولا للنار ولا لعذابها،ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ تمام مذاہب کے ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ نہ تو جنت فنا ہوگی اور نہ اسکی نعمتیں ،اور نہ جہنم فنا ہوگی اور نہ اسکے عذابات،
﴿ دوام دوزخ کا انکار کفر ہے ﴾
جنت کی نعمتیں اور دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لئے ہے جو آدمی یہ کہتا ہے کہ اہل جنت کے جنت میں اور اہل جہنم کے جہنم میں داخلہ کے بعد ایک مدت کے بعد دونوں فنا ہوجائیں گی تو اس نے یہ بات کہہ کر کفر کیا ہے۔(فقہ اکبر بروایت امام ابو مطیع بلخی:۱۸۱)
﴿ اجماع امت ﴾
دوام دوزخ پر امت کا اجماع ہے،امام ابو منصور عبدالقاہر بغدادی فرماتے ہیں:
اجمع اھل السنۃ وکل من سلف من اخیار الامۃ علی دوام بقاء الجنۃ والنار وعلی دوام نعیم اھل الجنۃ ودوام عناب الکفرۃ فی النار(اصول الدین:۳۳۸)
یعنی تمام اہل سنت ،اورتمام اسلاف امت کا جنت اوردوزخ کے ہمیشہ کے لئے باقی رہنے پر اجماع اور اتفاق ہے اور(اسی طرح)جنتیوں کے لئے نعمتوں کے ہمیشہ ہونے پر بھی اورکافروں کے ہمیشہ کے لئے دوزخ میں عذاب میں مبتلا ہونے پر بھی اجماع اوراتفاق ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں:زندگی کی فرصت بہت تھوڑی ہے اور ہمیشہ کا عذاب اس پر آنے والا ہے۔(مکتوبات مترجم :۱/۳۹)
﴿  المیہ ﴾
   لیکن اس مادیاتی دور میں جدید تعلیم یافتہ حضرات نے جہاں اصولی مسائل شرعیہ  کو اپنی کج فہمی کے میزان میں پڑکھ کر قرآن واحادیث کی مخالفت کررہے ہیں وہیں عقائد ایمانیہ میں بھی  مختلف قسم کے شک و شبہات کی نشر واشاعت کرتے رہتے ہیں،چنانچہ اس وقت بعض جدید تعلیم یافتہ کے مابین ایک بد اعتقادی اور عقیدہ کفریہ کاخوب چرچہ ہو رہا ہے کہ کیا کافروں کوجہنم میں ہمیشہ ہمیش رہنا ہو گا ،جبکہ اس نے کفر ایک محدود وقت میں کی ہے تو سزا بھی محدود وقت ہی میں ہونی چاہیے،ابدا لآباد سزا دینا کافروں کے حق میں عدل وانصاف نہیں ہے ،  اسی شبہ کی بیخ کنی اور عقیدہ اہل سنت والجماعت کےثبوت کیلئے ہمارے محسن ومکرم حضرت" مولانا ضیاء الحق صاحب صدیقی" مہتمم مدرسہ قاسم العلوم چند گڑھ کولہاپور نے راقم وعاجز کو حکم دیا کہ اس سلسلے میں ایک مفصل ومحقق دلائل نقلیہ و عقلیہ سے مزین مقالہ کو ترتیب دیں بس حضرت ہی سے کیا ہوا وعدہ کا ایفاء کر رہا ہوں اللہ تعالی ٰ آمر و مامور وقاری و ناشر سب کو عقیدہ اسلامیہ پر جمنے کے ساتھ ساتھ اپنی رضا والی  موت عطا کرئے آمین۔
 سب سے پہلے ہم ان آیات قرآنی کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے وضاحت کے ساتھ عقیدہ اہل سنت والجماعت تابت ہوتا ہے ،
﴿ دلائل نقلیہ قرآنیہ ﴾
1.خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ﴿١٦٢ البقرة﴾
2.وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩ البقرة﴾
3.خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ﴿١٦٢ البقرة﴾
4.فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧ البقرة﴾
5.يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَاخَالِدُونَ ﴿٢٥٧ البقرة﴾
6.وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥ البقرة﴾
7.خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ﴿٨٨ آل عمران﴾
8.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوالَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًاوَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِيهَاخَالِدُونَ﴿١١٦آل عمران﴾
9.وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨١ البقرة﴾
10.    وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا ﴿١٤ النساء﴾
11.    إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴿١٦٩ النساء﴾
12.    قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ﴿١٢٨ الأنعام﴾
13.    إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْحَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُوَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ{مائدة: 72}
14.    خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٢٢ التوبة﴾
15.    أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ﴿٦٣ التوبة﴾
16.    وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ﴿٦٨ التوبة﴾
17.    فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ﴿٢٩ النحل﴾
18.    خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ﴿١٠٨ الكهف﴾
19.    خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا ﴿١٠١ طه﴾
20.    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا {البينة: 6}
21.    وَمَا هُمْ بِخَارِجِيْنَ مِنَ النَّارِ{ البقرۃ : 167}
22.    وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ { الاعراف /40}
ہم نے بغرض اختصار صرف انہیں چند آیتوں پر اکتفا ء کرلیا ہے؛ورنہ تو ان کے علاوہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں آیتیں ایسی ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کافر ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیگا ، کیونکہ خالدا، خلود، خلدین،حرم علیہ الجنہ، وغیرہ کا معنی ہمیشہ ہمیش ہی آتاہے،امام طبری ؒفرماتے ہیں،
{ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } يَقُول : مَاكِثِينَ فِي السَّعِير أَبَدًا , إِلَى غَيْر نِهَايَة (تفسير الطبري)
یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان "خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا" یعنی کافر جہنم میں ہمیشہ رہیں گے جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے ،
تفسیر مظہری میں ہے  :ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے) یعنی اس میں رہیں گے نہ نکلیں گے نہ مریں گے۔( تفسیر مظہری مترجم اردو میں ہے( یونیکوڈ )صفحہ نمبر: 47)
تفسیر ابن عباس (اردو)میں ہے:
اور جن لوگوں نے کتاب اور رسول کو جھٹلایا وہ دوزخ والے ہیں۔ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ ہی وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے۔(تفسیر ابن عباس یونیکوڈ مکتبہ جبرئیل 45)
معارف القرآن میں ہے:آخری آیت والَّذِيْنَ كَفَرُوْا سے یہ بتلا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی پیروی نہیں کریں گے ان کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہوگا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس ہدایت کو ہدایت سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے سے انکار کردیں یعنی کفار اور مؤمنین جو ہدایت کو ہدایت ماننے کا اقرار کرتے ہیں وہ عملاً کیسے بھی گہنگار ہوں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد بالآخر جہنم سے نکال لئے جائیں گے، ( تفسیر  معارف القرآن ( یونیکوڈ)صفحہ نمبر: 47)
 ﴿ آحادیث نبویہ ﴾
 اس کے علاوہ احادیث نبویہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین موجود ہیں:
قیامت کے دن موت کو چتکبرے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا ، اسے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کر کے کہا جائے گا " اے جنتیو !کیا اسے جانتے ہو ؟ "وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے :"جی ہاں  جانتے ہیں یہ موت ہے"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :پھر کہا جائے گا  "اے جہنمیو ! کیا تم اسے جانتے ہو ؟ "وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے  " جی ہاں  جانتے ہیں  یہ موت ہے  "پھر اسے (موت کو)ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا اور ذبح کر دیا جائے گا ۔پھر کہا جائے گا :" جنتیو ! جنت میں  تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں موت کبھی نہیں آئے گی"اور جہنمیوں سے کہا جائے گا : " جہنمیو! جہنم میں  تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں بھی موت کبھی نہیں آئے گی"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  یہ آیت  پڑھی وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَترجمہ: اور آپ انہیں روز حسرت سے ڈرائیں کہ جب ہر  معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا  ، لیکن وہ حالت ِ غفلت میں ہیں  ، اور اس بات کو نہیں مانتے) اسے مسلم نے  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے ۔(مسلم 2849 وکذا فی الترمذی 2545)
اور ابن عمر کی روایت میں ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَارَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ فِي النَّارِ جِيءَ بِالْمَوْتِ حَتَّى يُوقَفَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُذْبَحُ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ يَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ فَازْدَادَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلَى فَرَحِهِمْ وَازْدَادَ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلَى حُزْنِهِمْ ثُمَّ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ ثُمَّ قَرَأَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهَؤُلَائِ فِي غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ،(صحيح البخاري» باب صفة الجنة والنار ،وکذاصحيح مسلم» باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء،وکذا مسند أحمد» مسند المكثرين من الصحابة    » مسند عبد الله بن عمر بن الخطاب،
ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اہل جنت ، جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لا کرجنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر ایک منادی پکار کر کہے گا اے جنت! تم ہمیشہ جنت میں رہو گے، یہاں تمہیں موت نہ آئے گی اور اے جہنم! تم ہمیشہ جہنم میں رہو گے، یہاں تمہیں موت نہ آئے گی، یہ اعلان سن کراہل جنت کی خوشی اور مسرت دو چند ہوجائے گی اور اہل جہنم کے غموں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ثپھر اس کو ذبح کردیا جائے گا اور جنتیوں سے کہا جائے گا کہ بے فکر ہو کر جنت میں رہو تم کو اب کبھی موت نہ آئے گی اور اسی طرح دوزخ والوں سے کہا جائے گا پھر آنحضرت ﷺ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا ( وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ الخ۔ ) 19۔ مریم : 39) یعنی اے رسول! آپ ان لوگوں کو حسرت کے دن سے ڈرایئے جس دن پچھتائیں گے جب کہ فیصلہ ہوجائے گا اور یہ لوگ پھر بھی غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ  سے مروی ہے:
وروي عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقال لأهل الجنة: يا أهل الجنة خلود لا موت، ولأهل النار، يا أهل النار خلود لا موت(رواہ البخاری6545)
ترجمہ : ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اہل جنت سے کہا جائیگا اے اہل جنت ہمیشہ رہنا ہے،(یہاں تم کو ) موت نہیں ہے ،اور جہنمی سے کہا جائیگا اے جہنمیو (یہاں تم کو )ہمیشہ رہناہے تم کو موت نہیں ہے ،
عقیدہ طحاویہ کے شارح  ابن ابی العز رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں :
" مشہور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے  بھی  "لا الہ الا اللہ " پڑھا ہے وہ جہنم سے ضرور نکلے گا۔شفاعت کی احادیث   میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ گناہ گار موحدین جہنم سے باہرنکلیں  گے ،  نیز ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم سے باہر آنے کا حکم صرف انہی کے ساتھ مختص ہے ، اگر کفار بھی جہنم سے نکل جائیں پھر  تو کفار بھی گناہ گار موحدین کے ہم پلہ و مرتبہ ہونگے اور جہنم  سے باہر نکلنے کا امتیاز صرف اہل ایمان  کے پاس باقی نہ رہے گا" انتہی شرح الطحاویۃ " صفحہ: 430، طبعہ المکتب الاسلامی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ [34]مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ)القلم 34،33)
ترجمہ: کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا بنا دیں گے، تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے بے تکے فیصلے کرتے ہو،
ان تمام نصوص شرعیہ اور محققین کی عبارتوں سےبخوبی واضح ہو گیا کہ کافر کیلئے خلود فی النار کا عقیدہ ہی حق ہے اور اسکے خلاف عقیدہ رکھنا کفر وضلالت ہے ،
﴿دلائل عقلیہ ﴾

﴿ پہلا جواب ﴾

حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: کہ اگر پوچھیں کہ حسنات میں اجر کئی گنا ہے اوربرائیوں میں سزا ان کی مثل ہے تو پھر کفار کو چند روزہ برائیوں کے بدلہ میں ہمیشہ کا عذاب کیوں ہوگا؟میں (مجدد الف ثانی)کہتا ہوں کہ عمل کے لئے جزاء کا ہم مثل ہونا اللہ تعالی کے علم پر موقوف ہے جس کے سمجھنے سے مخلوق کا علم قاصر (عاجز ) ہےمثلاً نیک شادی شدہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے سے اس کی ہم مثل سزا اسی کوڑے فرمائی ہے اور چوروں کی حد میں چور کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالنا اس کی سزا ہے اور زنا کی حد میں غیر شادی شدہ کا غیر شادی شدہ سے زنا کرنے کی صورت میں سو کوڑے اورایک سال کی جلاوطنی مقرر کی ہے (احناف کے نزدیک منسوخ ہے)اوربوڑھے آدمی کا بوڑھیا عورت(یعنی شادی شدہ مرد کا شادی شدہ عورت) کے ساتھ زنا کی صورت میں سنگسار کرنے کا حکم فرمایا ہے ان حدود اور تعزیرات کا علم انسان کی طاقت سے خارج ہے یہ خدائے عزیز وعلیم کا اندازہ ہے پس کفار کے بارہ میں اللہ تعالی نے کفر موقت کے لئے ہمیشہ کا عذاب موافق و مناسب جزا فرمائی ہے تو معلوم ہوا کہ کفر موقت کی ہم مثل سزا یہی ہمیشہ کا عذاب ہے،اور وہ شخص جو تمام احکام شرعیہ کو اپنی عقل کے مطابق کرنا چاہے اور عقلی دلائل کے برابر کرنا چاہے وہ شان نبوت کا منکر ہے اس کے ساتھ کلام کرنا بے وقوفی ہے۔ (مکتوبات مجدد الف ثانی مترجم:۱/۳۵۸)
﴿ دوسرا جواب ﴾

یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ سزا جرم کے مناسب ہونی چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ جرم اورسزاکا زمانہ بھی برابر ہو جیسا کہ کسی جگہ دو گھنٹہ تک ڈکیتی پڑے اورڈاکو پکڑا جائے تو اس کو دوگھنٹہ تک سزادے کر رہا نہیں کیا جاتا پس معلوم ہوا کہ سزا میں شدت جرم کی شدت کے حساب سے ہوتی ہے؛چونکہ کفر کا جرم شدید ہے تو اس کی سزا بھی شدید ہی ہوگی۔اگر خیال ہوکہ جرم شدید تو ہے مگر ایسا شدید نہیں کہ اس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال اسلئے پیدا ہوا کہ تم نے صرف اس جرم کی ظاہری صورت پر نظر کی ہے؛حالانکہ سزا اورجزاء کا مدار محض اس کی ظاہری صورت پر نہیں ہوتا ؛بلکہ اس میں نیت کو بھی بڑا دخل ہے؛بلکہ یوں کہناچاہیے کہ اصل مدار ہی نیت پر ہے؛چنانچہ اگر شادی کی پہلی رات میں عورتوں نے غلطی سے دولہا کے پاس کسی دوسری عورت کو بھیج دیا جس کے ساتھ اس نے یہ جان کر صحبت کی کہ یہ میری بیوی ہے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا؛بلکہ یہ وطی باالشبہ کہلائے گی اور اگر کسی نے اپنی بیوی سے صحبت کی مگر خیال یہ رکھا کہ میں فلاں غیر عورت سے صحبت کررہا ہوں تو اس کا گناہ ہوگا،جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اب یہ سمجھیں کہ ظاہری طور پر تو کافر کا کفر اس کی عمر تک محدود ہے مگر اس کی نیت یہ تھی کہ اگر زندہ رہا تو ہمیشہ اسی حالت پر رہوں گا اس لئے اپنی نیت کے مطابق اس کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کا عذاب ہوگا اسی طرح مسلمان کا اسلام گو بظاہر ایک زمانہ تک محدود ہے مگر اس کی نیت یہ ہے کہ اگر میں ہمیشہ زندہ رہوں تو ہمیشہ اسلام کا پابند رہوں گا اس لئے اس کا ثواب بھی ہمیشہ کی جنت ملے گا۔
(اشرف الجواب حضرت تھانویؒ:۱/۳۶،مع تغیر)
وقد ذكر ابن القيم هذه العلة في معرض بيان حجة من قال بعدم فناء النار في ما نقله في حادي الأرواح: سبب التعذيب لا يزول إلا إذا كان السبب عارضا ـ كمعاصي الموحدين ـ أما إذا كان لازما ـ كالكفر والشرك ـ فإن أثره لا يزول كما لا يزول السبب، وقد أشار سبحانه إلى هذا المعنى بعينه في مواضع من كتابه منها: قوله تعالى: وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ ـ فهذا إخبار بأن نفوسهم وطبائعهم لا تقتضي غير الكفر والشرك، وأنها غير قابلة للإيمان أصلا.
﴿  تیسرا جواب ﴾

کافر کو جو ہمیشہ کا عذاب ہوگا اس میں اس پر کوئی ظلم نہیں ؛کیونکہ کافر اللہ تعالی کی ہر ہر صفت کے حقوق کو ضائع کرتا ہے اور اس کی صفات لامتناہی ہیں اور ہر صفت کے حقوق بھی غیر متناہی ہیں تو چاہیے تو یہ تھا کہ ہر صفت کے انکار پر لامتناہی سزا ہوتی اور پھر ہر صفت کے حقوق پر اس طرح غیر متناہی سزا ہوتی ؛لیکن ایسا نہیں کیا جائے گا ؛بلکہ صرف کفر کی سزا دائمی طور پر جہنم کا عذاب ہوگا پس معلوم ہوا کہ اس سزا میں زیادتی نہیں؛بلکہ ایک معنی کو کمی ہے۔(اشرف الجواب مذکور ص۳۷،ص۲۹۴)
﴿  چوتھا جواب ﴾

بغاوت کی سزادائمی ہوتی ہے جس کا دوام حکام ظاہری(دنیاوی حکمرانوں)کے اختیار میں ہے یعنی باغیوں کے لئے تاحیات دائمی سزا مقرر کرتے ہیں اورجس قسم کا دوام احکم الحاکمین(خدا تعالی)کے اختیار میں ہے یعنی اصلی اختیار جو مرنے کے بعد بھی موجود ہے وہ اپنے باغیوں(کافروں)کے واسطے ہمیشہ دوزخ کی سزا مقرر فرمائیں گے اس میں ظلم اورزیادتی کچھ بھی نہیں؛بلکہ عین عدل ہے۔(اشرف الجواب مذکور:۲۹۴)
﴿ پانچواں جواب ﴾

خدا کے پیغمبروں نے ساری دنیا میں اس کی منادی فرمائی ہے کہ وہ خدا اور اس کے احکام کو تسلیم کریں جو انکار کرے گا اس کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کا عذاب جھیلناہوگا تواب جس نے بھی انکار اور کفر کیا تو اس کو ابدی سزادی جائے تو یہ اس کا حق ہے؛کیونکہ اس نے اس پیغام کےپہنچنے کے باوجود کفر کو اختیار کیا اور اگر کسی کے پاس نبوت کا پیغام نہیں پہنچا تو اس کے بارہ میں علمائے اسلام کے دو نظریے ہیں ایک کے نزدیک ایسے لوگ دوزخ میں نہیں جائیں گے جبکہ دوسرے کے نزدیک وہ بھی دوزخ میں جائیں گے ؛کیونکہ اگرچہ کسی کے پاس نبی اور رسول یا ان کے نائب کا پیغام یا کوئی رہنما کتاب اورلٹریچر نہ بھی پہنچا ہو تب بھی اس کے ذمہ ہے کہ وہ مظاہر قدرت اور اپنے وجود اور انعامات سے استدلال کرے اور صرف خدا کے وجودہی پر ایمان لائے باقی تفصیلات کا چونکہ اس کو علم نہیں اس لئے اس کی نجات کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔(انوار اسلام)
 ﴿  چھٹا جواب ﴾

گناہگاروں کی سزا کے بارہ میں ہندو مذہب میں اس طرح سے ہے کہ جس وقت کوئی گناہگار مرتا ہے تو جمراج(دوزخ کا داروغہ)جس کو دھرم رائے بھی کہا کرتے ہیں اس کے سپاہی گناہگار کی روح کو جمراج کے پاس لے جاتے ہیں جمراج اس کے عملوں کا حساب لیتا ہے پھر وہ جس سزا کے لائق ہوتا ہے ویساہی دوسرا جنم ملتا ہے اس جنم میں اپنے اعمال کا حساب لیتا ہے پھر وہ جس سزا کے لائق ہوتا ہے ویسا ہی دوسرا جنم ملتا ہے اس جنم میں اپنے اعمال کی سزا پاکر اس جنم سے نکل کر پھر کسی اور جنم میں داخل ہوتا ہے اس طرح سے ہزارہا جنم لیتا ہے اورحسب اعمال ہر طرح کے حیوان کی صورت میں جنم لیتا ہے یہاں تک کہ مکھی ،بھڑ،سور اور کتا وغیرہ حیوانات؛بلکہ کبھی درخت بھی ہوجاتا ہے اور بعض ہندو کہتے ہیں کہ پتھر بھی ہو جاتا ہے اور بہت سے جنم لے کر اوراپنے عملوں کی سزا پاکر جب گناہوں سے صاف ہوتا ہے تب اس کی نجات ہوتی ہے اورنجات یہ ہوتی ہے کہ وہ نیست و نابود ہوکر خدا کی ذات میں مل جاتا ہے اور کبھی گناہوں کی شامت سے دوزخ میں جاکر وہاں سے نکل کر کبھی پھر جنم لیتا ہے۔(تحفۃ الہند:۴۵)
ہندوؤں کے نزدیک زمانے کے چار دور مقرر ہیں پہلا ست جگ،دوسرااتریتا جگ،تیسرا دواپر جگ،چوتھا کلجگ۔ (حاشیہ تحفۃ الہند:۱۴)
جب سے انسان ست جگ کی ابتداء میں جنم میں آیا ہے اب تک ان کے نزدیک لاکھوں سال گذر گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ ان کے نزدیک باقی کتنے کروڑہا سال باقی ہیں ان میں انسان اپنے گناہوں کی پاداش میں نہ جانے کتنے جنم لے چکا ہے اورکب سے اپنے گناہوں کی سزا پا رہا ہے۔
مذکورہ دونوں حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کے اس زندگی میں کئے ہوئے گناہوں کی سزا اس کی دنیاوی زندگی سے کروڑہا سال زیادہ پر مشتمل ہے جہنم اس بات کی دلیل ہے کہ ہندو مذہب میں بھی مذہبی مجرم کی سزا بہت ہی زیادہ ہے جس کی انتہاء کا کسی کو علم نہیں ہندو مذہب کے اس نظریہ سے بھی اسلام کے اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہوتی ہے کہ کافرخدا کے نافرمان کا انجام جہنم میں ہمیشہ کا عذاب ہونا چاہیے۔
﴿  ساتواں جواب ﴾

مسیحی مذہب بھی اس مسئلہ میں مذہب اسلام کی تائید کرتا ہے؛چنانچہ ہم اس کی تائید میں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف دوحوالے پیش کرتے ہیں۔
انجیل مرقس باب ۹درس ۴۳اورانجیل متی باب ۱۸ درس ۸ میں ہے جہنم کے بیچ اس آگ میں جائے جو کبھی بجھ نے کی نہیں۔اس حوالے سے معلوم ہوا کہ دوزخ ہمیشہ باقی رہے گی اس پر کبھی فنا نہ آئے گی۔
پوری دنیا میں بڑے مذاہب تین ہیں اسلام ہندومت اور عیسائیت ان تینوں سے متفقہ طور پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دوزخ بھی ہمیشہ رہے گی اوردوزخ میں جانے والے کافر بھی ہمیشہ کے لئے سزا پائیں گے یہودی بھی مسیحی مذہب کے مطابق نظریہ رکھتے ہیں،اب صرف منکرین خدا اور منکرین مذہب ہی باقی رہ گئے ہیں جو مذکورہ اہل مذاہب کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ہم نے پوری دیانتداری سے مختلف مذاہب کے نظریے نقل کردئے ہیں،(نوٹ دلائل عقلیہ کی تمام عبورتوں کو ہم نے کتاب "انوار اسلام  "مکتبہ جبرئیل سے اضافہ یسیر اور حذف کثیر کے ساتھ تحریر کیا ہے )
اللہ تعالیٰ ان سطور کو ذریعہ آخرت بناکر پوری امت محمد ﷺ کو راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر گامزن کرے آمین۔ثم آمین

مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ