Wednesday, August 13, 2025

مختصر تاریخ ہند



      

       





         ﷽

      مختصر و پر مغز تاریخ ہند

مقصود مختصرا دو باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنی ہے ،(1)حکومت برطانیہ سے قبل مسلم حکومتیں(2)ہند پربرطانیہ کا تسلط اور جنگ آزادی

(1)ساتویں یا آٹھویں صدی میں اولا محمد بن قاسم نے ہندوستان کے بعض علاقےسندھ و ملتان پر فتح کا جھنڈا قائم کیا بعدہ محمد بن قاسم نے اپنی صلاحیتوں، جرات اور حسن تدبر و اخلاق کے باعث ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے وہ قابل ذکر ہیں۔آپ کی حکومت سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور عملی ہر اعتبار سے بے شمار اثرات کی حامل تھی۔

باقی ہندوستان کے دوسرے علاقے میں کئی خاندانوں اور سلطنتوں نے حکومت کی۔ ان میں سے چند مشہور یہ ہیں: موریہ سلطنت، گپتا سلطنت، چولا سلطنت، اور راجپوت خاندان۔بعدہ ہند پر چارسلطنتوں نے حکومت کی ہیں (1)  غزنی سلطنت  (2) غوری سلطنت (3) دہلی سلطنت (4) مغل سلطنت

سلطنت غزنی:سلطنت غزنی:۔ 976 سے 1186تک قائم رہی ، جس میں کل اٹھارہ باشاہ آئے:۔

 1. سبکتگین (977-997ء):غزنوی سلطنت کے بانی اور پہلے حکمران۔

2. محمود غزنوی (998-1030ء):سبکتگین کا بیٹا اور غزنوی سلطنت کا سب سے مشہور اور طاقتور حکمران۔

3. محمد غزنوی (1030-1031ء):محمود غزنوی کا بیٹا اور جانشین، لیکن جلد ہی معزول کر دیا گیا۔

4. مسعود غزنوی (1031-1041ء):محمود غزنوی کا دوسرا بیٹا، جس نے محمد کو معزول کر کے تخت سنبھالا۔

5. مودود غزنوی (1041-1049ء):مسعود غزنوی کا بیٹا، جس نے اپنے چچا عبدالرشید کو قتل کر کے تخت پر قبضہ کیا۔

6. مودود کے جانشین:اس کے بعد کئی کمزور حکمران آئے، جن میں عبدالرشید، فرخ زاد، ابراہیم، مسعود سوم، شیر زاد، ارسلان شاہ، بہرام شاہ اور خسرو شاہ شامل ہیں۔

7. خسرو ملک (1152-1186ء):غزنوی سلطنت کا آخری حکمران،  غوریوں نے 1186ء میں غزنوی سلطنت کو شکست دیکر اپنی حکومت قائم کی ، غوری سلطنت کی بنیاد محمد غوری نے رکھی تھی،سب سے پہلے  غیاث الدین محمد غوری تخت نشیں ہوا اس کے بعد اسی کے بھائی شہاب الدین غوری حکومت پر براجمان ہوا ، ان کے بعد ان کے غلاموں اور دیگر حضرات نے دہلی سلطنت قائم کی جو 1206 سے 1526 تک قائم رہی۔ دہلی سلطنت میں خاندان غلاماں (1206ء تا 1290ء) ، خلجی خاندان (1290ء تا 1320ء)، تغلق خاندان (1320ء تا 1413ء)، سید خاندان (1414ء تا 1451ء) اور لودھی خاندان (1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔

خاندان غلاماں (1206 - 1290)غوری سلطنت کے بعددہلی سلطنت قائم ہوئی جس میں پہلےخاندان غلاماںسے بادشاہ ہوئے جن کی فہرست یہ ہے: 

(1)قطب الدین ایبک: (1206-1210) غوری سلطنت کے پہلے سلطان اور دہلی سلطنت کے بانی۔ 

(2)شمس الدین التمش: (1211-1236) قطب الدین ایبک کے بعد سلطان بنے۔

(3)رکن الدین فیروز شاہ: (1236) التمش کے بعد سلطان بنے لیکن چند ماہ بعد معزول ہوئے۔

(4)رضیہ سلطانہ: (1236-1240) التمش کی بیٹی اور پہلی مسلم خاتون حکمران۔

(5)معز الدین بہرام شاہ: (1240-1242) التمش کے بیٹے اور رضیہ سلطانہ کے بعد سلطان بنے۔

(6)علاء الدین مسعود شاہ: (1242-1246) بہرام شاہ کے بعد سلطان بنے۔

(7)ناصر الدین محمود: (1246-1266) التمش کے پوتے اور غیاث الدین بلبن کے وزیر رہے۔

(8)غیاث الدین بلبن: (1266-1287) ناصر الدین محمود کے بعد سلطان بنے اور مضبوط حکومت قائم کی۔

(9)معز الدین کیقباد: (1287-1290) بلبن کے پوتی ہے۔ (10)  کیومرث (-1290) 

خلجی حکومت :۔  خلجی خاندان (1290 - 1321)کے درمیان حکومت کیں جن کے بادشاہ حسب ذیل ہیں:۔

(1)جلال الدین فیروز خلجی (1290 - 1294)    (2)علاؤ الدین خلجی (1294 - 1316)    (3)قطب الدین مبارک شاہ (1316 - 1321)

تغلق خاندان (1321 - 1398)

(1)سلطان غیاث الدین تغلق شاہ (1321 - 1325) (2)محمد بن تغلق (1325 - 1351)

(3)فیروز شاہ تغلق (1351 - 1388) (4)غیاث الدین تغلق ثانی (1388 - 1389)

(5)ابو بکر شاہ (1389 - 1390) (6) ناصر الدین محمود شاہ ثالث (1390 - 1393)

(7)سکندر شاہ اول ( March - April 1393) (8)محمود ناصر الدین (1393 - 1394)

(9)نصرت شاہ فیروز آباد میں (1394 - 1398)

سید خاندان (1414 - 1451)کے بادشاہ حسب ذیل ہیں:

(1)خضر خان (1414 - 1421)      (2)مبارک شاہ ثانی (1421 - 1435)

(3)محمد شاہ رابع (1435 - 1445)    (4)علاؤ الدین عالم شاہ (1445 - 1451)

لودھی خاندان (1451 - 1526) کے بادشاہ حسب ذیل ہیں:

(1)بہلول خان لودھی (1451-1489)        (2)سکندر لودھی (1489-1517)      (3) ابراہیم لودھی (1517-1526)

مغل دور (1526-1540)مغل بادشاہوں کی فہرست درج ذیل ہے:

(1)ظہیر الدین محمد بابر: (1526-1530) (2)نصیر الدین محمد ہمایوں: (1530-1540, 1555-1556)

(3)جلال الدین محمد اکبر: (1556-1605) (4)نورالدین محمد جہانگیر: (1605-1627)

(5)شہاب الدین محمد شاہ جہاں: (1628-1658) (6)محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر: (1658-1707)

(7)قطب الدین محمد معزالدین جہاندار شاہ: (1712-1713) (8)نظام الدین محمد فرخ سیر: (1713-1719)

(9)رفیع الدرجات: (1719) (10)شاہ جہاں ثانی: (1719)

(11)نصیر الدین محمد ہمایوں: (1719-1748) (12) احمد شاہ بہادر: (1748-1754)

(13)عالمگیر ثانی: (1754-1759) (14)شاہجہاں ثالث: (1759-1760)

(15)شاہ عالم ثانی: (1760-1806) (16)اکبر شاہ ثانی: (1806-1837)

(17)بہادر شاہ ظفر: (1837-1857)

انگریز کی آمد اور حکومت برطانیہ کا تسلط: برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میںہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا،اس وقت ہندوستان پر مغل بادشاہ اکبر کی حکومت تھی، جن کا انتقال 1605 میں ہوا۔ اکبر کے بعد جہانگیرآیے۔ 1613ء میں اس نے سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ ان کےابتدائی تجارتی مراکز:سورت، مدراس، کلکتہ اور بمبئی جیسی جگہوں پر انگریزوں نے تجارتی کوٹھیاں قائم کیں۔1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔

جنگ آزادی کی ابتدا:انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے،انگریز بدلہ کی آگ میں جل رہاتھا علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئےمگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی بالآخر1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا،اسی طرحپلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔

حیدر علی اور ٹیپو سلطان :۔نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکرسرخروئی حاصل کی۔

اس درمیاں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے مسلم بادشاہوں کے نام خطوط لکھے اور آیندہ کے خظرے سے آگاہ کیا،شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمہ الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھایا، وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔انہوں نے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قرار دیا گیا اور سیداحمد شہید رائے بریلوی رحمہ الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمہ الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ اس ملک کے انسانوں کوآزادی دلانے کے لیے انگریزوں اوران کے اتحادی سکھ ساتھیوں کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛لیکن یہ تحریک چلتی رہی، مولانا نصیرالدین دہلوی رحمہ الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات ہوئی۔انکے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمہ الله  (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اس طرح یہ جہادکاقافلہ برابررواں دواں رہا؛ حتیٰ کہ سن ستاون 1857ء تک لے آیا۔

1857ء کی جنگ آزادی :میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمہ الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمہ الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن  رحمہ الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمہ الله نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی۔

موہن داس رام چندر گاندہی :1915ء میں گاندھی جنوبی افریقا سے واپس بھارت میں رہنے کے لیے آئے۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے کنونشن میں شرکت کی تھی، لیکن بنیادی طور پر بھارتی مسائل، سیاست اور عوام سے تعارف گوپال کرشن گوگھلے کے توسط سے ہوا جو اس وقت کے کانگریس پارٹی کے قابل احترام قائد تھے،دسمبر 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا ذمہ سونپا۔

جمیعت کا قیام اور ترک موالات کا فتویٰ:۔ 1919ء میں جمعیت علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمہ الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمہ الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمہ الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمہ الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمہ الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمہ الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔

تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد:۔1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران(مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمہ الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمہ الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے۔

بالآخر1947 میں کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی ۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا ۔

نئے مضامین کئلئے نیچے کلک کریں

ہندوستان کی آزادی

آزادی کے نعرے

ترنگا

Sunday, January 19, 2025

جامعہ اسلامیہ کا قیام

 

{جامعہ اسلامیہ کا قیام کب اور کیسے  ؟}

    قرب وجوار میں بے دینی اور کفر و شرک سے مسلم گھرانے بھی متاثر ہونے لگے اور بچے دینی تعلیم سے کوسوں دور ہوکر شرک و بدعات اور مخرب عادتوں کا شکار ہونے لگے،الحاد و بے دینی عام ہونے لگی اس وقت تعلیم و تر بیت اور شرک و بدعات کی بیخ کنی کیلئےالحاج حسیب الرحمن صاحب ناظم و بانی جامعہ ھذا نے اس وقت کےاکابرین علماء کرام کےمشورہ  سے جامعہ کی بنیاد کا فیصلہ لیا اور مستقل جانفشانی اور گرانقدری  جانی و مالی قربانی کے بعد  بتاریخ 6/ اپریل 2006ء میں برموتر سرکاری اسکول کے قریب (اسی خطہ اراضی پر جہاں آج جامعہ موجود ہے) ایک عظیم الشان اجلاس زیر صدارت حضرت مولانا ممتاز علی صاحب  ؒ مظاہری سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ یکہتہ، منعقدہوا ،گرد و نواہ کے اصحاب علم و فکر ،علم دوست حضرات بالخصوص ماسٹر معراج الحق صاحب، ؒ الحاج جناب ماسٹر مشیر الحق صاحب ،الحاج جناب عبد الرشید صاحب ؒ،الحاج جناب انیس الرحن صاحب ؒ ، الحاج جناب ماسٹر فیاض الرحمن صاحب ؒ شانہ بشانہ رہے، جن میں سے کئی ایک اللہ کے پیارے ہوگئے ،البتہ الحاج ماسٹر مشیر الحق صاحب موجودہ سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں ۔
  اس مبارک اجلاس میں ریاست بہارکے تقریبا تمام اکابرین علماء کرام نے شرکت فرمائی ، بالخصوص فقیہ عصر حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری ؒ سابق سرپرست جامعہ ہذا وسابق قاضی شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ ، حضرت اقدس قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی سابق صدر جامعہ ہذا،حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب امام عیدین کلکتہ ، حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،  حضرت قاری شبیر صاحب مہتمم مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ ، قاری ابوالحیات صاحب ندائے اسلام کلکتہ ، حضرت مولا نا وصی احمد صدیقی سابق مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ کے علاوہ علاقہ کے ممتاز علماء کرام اور دانشوارانِ قوم و ملت کی موجودگی میں ہی  7 / اپریل2006 کو  دو روم کی بنیاد رکھی گئی جس کی تکمیل کے بعد تعلیم شروع ہوئی؛ لیکن کسی سبب سے کچھ وقت کیلئے تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا، اور پھرماہ رمضان 2015 ء  میں ایک مرتبہ فقیہ عصر حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری ؒ سابق سرپرست جامعہ ہذا نے جامعہ کے بانی الحاج حسیب الرحمن صاحب سے کلکتہ میں کہا حسیب صاحب! آپ مدرسہ بنائیں گے یا نہیں ؟ بس  کیا تھا، از دل ریزد بر دل خیزد، ایک ولی کامل کی بات حضرت حاجی صاحب کے دل پرمکمل اثر کر گئی ، بالآخر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ 10 اپریل 2015 ء  میں موجود ہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی، اور اللہ کے فضل و کرم سے یہ عمارت مکمل ہوئی ، پھربتاریخ 24 شوال المکرم 1440ھ مطابق 28  جون 2019  ء میں  فقیہ عصرحضرت مظفر پوری ؒ ، کی زیر صدارت یک روزہ تعلیمی بیداری کانفرنس منعقد ہوا جس میں حضرت اقدس مولانا حبیب اللہ صاحب قاسمی سابق قاضی شریعت مدہوبنی ؒ ، حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ، حضرت مولانا شبلی صاحب قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ پھلوار شریف ،پٹنہ ،قطب وقت حضرت مولانا اظہار الحق صاحب دامت برکاتہم ناظم اعلیٰ مدرسہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامرہی ،کے علاوہ کابرین امت ، بہی خواہان قوم و ملت اور صوبہ بہار و بنگال کے علماء کرام کی پر سوز دعاؤں سے تعلیمی سفر کا آغاز ہوا۔
الحمد للہ اس قلیل مدت میں جامعہ نے روحانی و مادی دونوں ترقیات حاصل کیا ،جامعہ ہذا  میں دینیات ، حفظ ،دور، فارسی، ازعربی اول تا عربی پنجم کی تعلیم ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی نصاب کے مطابق مکمل انتظام ہے ،جامعہ میں جہاں دینی تعلیم سے طلبہ کو آراستہ کیا جاتا ہے وہیں ہندی ، انگلش ، حساب اور سائنس کی تعلیم بھی باضابطہ بہار سرکار کے اسکول کے مطابق دی جاتی ہے ، نیز مستقبل قریب میں ہائی اسکول تک کی تعلیم دینے کا بھی پروگرام ہے ۔


 


جامعہ ہی کے تحت جامعہ تہذیب النساء بھی چل رہا ہےجس میں مسلم بچیوں کے لئے علیٰحدہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی مکمل انتظام ہے، الحمد للہ فی الوقت عربی دوم تک کی تعلیم دی جارہی ہے  انشاء اللہ آئندہ سال سے عالمیت تک کی تعلیم کے ساتھ میٹرک کی تعلیم کا مکمل انتظام رہے گا۔جامعہ تہذیب النساء فی الوقت موجو دہ عمارت ہی میں جانب شمال کے کمروں میں چل رہا ہے ،مستقبل قریب ہی میں زمین کی حصولیابی کرکے مستقل علیحدہ عمارت بنانے کا عزم مصمم ہے ،اللہ تعالیٰ اس مقصد کی تکمیل جلد از جلد کرائے،آمین ۔



فوٹو گلیری







Saturday, August 3, 2024

فتنۂ شکیلیت کا تعاقب و تجزیہ



فتنۂ شکیلیت کا تعاقب و تجزیہ
شکیل بن حنیف، دربھنگہ، بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل دہلی میں تھا،مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی؛ لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلا، دہلی کے زمانہٴ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے؛ لیکن جیسے ہی لوگوں کو اس کی حرکتوں کی اطلاع ہوتی، وہ اس کے خلاف ایکشن لیتے اور اسے اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا، بالآخر اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آبادکے’’رحمت نگر‘‘ میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ”حواری“ رہتے ہیں۔
 ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے، دہلی، بہار، مہاراشٹر وآندھرا پردیش وغیرہ میں اس کے فتنہ میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں،شدہ شدہ یہ فتنہ مدہوبنی میں کئی گھروں میں داخل ہوچکی ہے۔
شکیل بن حنیف دو فتنوں کا جامع
پہلا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو امام مہدی کہتا ہے۔ دوسرا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام بھی کہتا ہے۔
فتنہ اول :۔  علامات مہدی کی روشنی میں شکیل کا جائزہ:
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ شکیل غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔
حضرت مہدی کی متعلق  رسول اکرم ﷺ  کی حدیثوں میں متعدد علامتیں موجود ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کر تے ہوئے ان کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیں گے:
۱- رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، (ابوداود، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل، شکیل بن حنیف ہے، محمد بن عبد اللہ نہیں۔
۲- رسول اللہ ﷺ  نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہدی آپ کی ہی نسل سے ہوں گے،اور ان کا سلسلہٴ نسب حضرت فاطمہ تک پہنچے گا، (ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)۔ جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہی ہے۔
۳- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی کے ہوں گے یعنی گورے رنگ کے ہوں گے،(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایسا نہیں ہے۔
۴- رسول اللہ ﷺ  نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
۵- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمراں بھی ہوں گے، (ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)، اور شکیل حکمرانی کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
۶- احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے (ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)، جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
فتنہ دوم :۔ شکیل اور حضرت عیسیٰ  ؑ
حضرت عیسیٰ  ؑکی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کی بابت بھی قرآن اور حدیث میں کچھ ایسی واضح باتیں بتادی گئی ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر شکیل وقادیانی جیسے ہر جھوٹے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ذیل میں ایسی ہی چند علامتیں درج کی جاتی ہیں:
۱- اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑکی آمد کے سلسلہ میں آں حضرت  ﷺ  نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس سے یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ وہی عیسی بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور جن کی والدہ حضرت مریم تھیں اور جو بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے، صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں ایسی کئی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن میں قیامت کے قریب آپ کی آمد کا تذکرہ ہے اور آپ کا نام عیسیٰ بن مریم ہی لیا گیا ہے، ان میں سے چند روایتیں ابھی آپ پڑھیں گے۔ اور مہدی وعیسی ہونے کا یہ دعوے دار شکیل بن حنیف ہے، ہندوستان کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ عیسیٰ بن مریم نہیں ہے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے اور جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جن کی والدہ کا نام مریم تھا۔
۲- حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے سلسلہ میں متعدد احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اتریں گے (مثلا ملاحظہ ہو: بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، )؛جب کہ یہ شکیل بن حنیف عثمان پور نامی ایک گاوٴں میں اپنے والد حنیف کے یہاں پیدا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اترا ہے۔
۳- صحیح بخاری وصحیح مسلم کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ  کا ارشاد ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمراں بن کرضرور نازل ہونگے، صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہوجائے گی)، خنزیر (کی نسل) کو قتل کردیں گے،  اور مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (بخاری ،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، مسلم ،کتاب الایمان، باب نزول عیسی بن مریم)
اب ذرا اس حدیث کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیجیے، وہ نہ اب تک حکمراں بنا ہے اور نہ حکمرانی کا کوئی ارادہ رکھتا ہے، وہ تو اورنگ آباد، مہاراشٹر کے پاس کی ایک بستی میں چھپا بیٹھا ہے، اور وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور اس نے نہ کبھی کوئی صلیب توڑی ہے اور نہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، نہ خنزیروں کوقتل کیا ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں مال ودولت کی فراوانی ہوئی ہے اور نہ غربت کا خاتمہ ہوا ہے کہ صدقات لینے والا کوئی نہ ملے۔
۴- قرآن مجید نے سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہلِ کتاب (یہودی وعیسائی) مسلمان ہوجائیں گے: ”وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ“ اور شکیل کے ہاتھ پر اب تک ایک بھی عیسائی اسلام نہیں لایا۔
ان کے علاوہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ  ؑ کی بابت اور بھی علامتیں یا پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ لیکن قرآن وصحیح احادیث میں مذکور یہی چار علامتیں شکیل کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اس مختصر سے مضمون میں مزید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اس فتنہ کا مقابلہ کیسے ہو؟
یہ فتنہ چونکہ بہت رازداری کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے؛ اس لیے عام طور پر جب کسی علاقہ کے خادمانِ دین کو اپنے علاقے کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس فتنہ کے داعی سرگرم ہیں،تو اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے اور کئی نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے ہیں؛ اس لیے کسی بھی علاقہ میں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں فتنہ کی آمد کی خبر ملے گی تو پھر فکر کریں گے؛ اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں یہ سرگرم ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو، صورتِ حال کی خطرناکی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن علاقوں کے سلسلے میں یہ اطمینان تھا کہ یہاں یہ فتنہ موجود نہیں ہے، وہاں کے ائمہٴ مساجد نے بھی جب اپنی مسجدوں میں اس مسئلہ پر گفتگو کی تو کچھ نوجوانوں نے ان میں سے کچھ ائمہ کو بتایا کہ اس طرح کے لوگوں نے ہم سے بھی رابطہ کیا ہے؛ اس لیے ضرورت  ہے کہ کسی بھی علاقہ کے سلسلہ میں اطمینان نہ کیا جائے، اور پہلے سے ہی عوام کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے؛ تاکہ اگر یہ فتنہ آپ کے علاقہ میں نہ پہنچا ہو تو اس کی آمد کو روکا جاسکے، اور اگر خدانخواستہ پہنچ گیا ہو تو اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
اس فتنہ کے مقابلہ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر علاقہ کی تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر اس سلسلہ میں گفتگو کرکے لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، اسی طرح ہم ان لوگوں کو فتنہ سے آگاہ کرسکتے ہیں جن کو اس فتنہ کے داعیان اپنا مخاطب بناتے ہیں، 
فتویٰ: شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کافر ومرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اگر ان میں سے کسی کا اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس کی نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ اُسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
فتویٰ: شکیل بن حنیف اپنے عقائد کی وجہ سے کافر مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جو لوگ اس کو سچا مان کر اسے امام مہدی اور مسیح موعود عیسی علیہ السلام مانتے ہیں یا اس عقیدہ پر اُس کے ہاتھ پر بیعت ہوتے ہیں، وہ بھی بلا شبہہ کافرو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ، ایسے لوگوں سے تعلقات ترک کرنا ، اُن سے معاملات اور معاشرت میں دوری اور کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے ، ایسے لوگ اگر سلام کریں، تو ان کے جواب میں ہداک اللہ کہدینا چاہیے ۔

                نوٹ: یہ مضمون نیٹ سے لیاگیا ہے خاص کر کے دارالعلوم دیوبند کے ویب سائٹ سے

 
اس کو بھی پڑھیں