Sunday, January 19, 2025

جامعہ اسلامیہ کا قیام

 

{جامعہ اسلامیہ کا قیام کب اور کیسے  ؟}

    قرب وجوار میں بے دینی اور کفر و شرک سے مسلم گھرانے بھی متاثر ہونے لگے اور بچے دینی تعلیم سے کوسوں دور ہوکر شرک و بدعات اور مخرب عادتوں کا شکار ہونے لگے،الحاد و بے دینی عام ہونے لگی اس وقت تعلیم و تر بیت اور شرک و بدعات کی بیخ کنی کیلئےالحاج حسیب الرحمن صاحب ناظم و بانی جامعہ ھذا نے اس وقت کےاکابرین علماء کرام کےمشورہ  سے جامعہ کی بنیاد کا فیصلہ لیا اور مستقل جانفشانی اور گرانقدری  جانی و مالی قربانی کے بعد  بتاریخ 6/ اپریل 2006ء میں برموتر سرکاری اسکول کے قریب (اسی خطہ اراضی پر جہاں آج جامعہ موجود ہے) ایک عظیم الشان اجلاس زیر صدارت حضرت مولانا ممتاز علی صاحب  ؒ مظاہری سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ یکہتہ، منعقدہوا ،گرد و نواہ کے اصحاب علم و فکر ،علم دوست حضرات بالخصوص ماسٹر معراج الحق صاحب، ؒ الحاج جناب ماسٹر مشیر الحق صاحب ،الحاج جناب عبد الرشید صاحب ؒ،الحاج جناب انیس الرحن صاحب ؒ ، الحاج جناب ماسٹر فیاض الرحمن صاحب ؒ شانہ بشانہ رہے، جن میں سے کئی ایک اللہ کے پیارے ہوگئے ،البتہ الحاج ماسٹر مشیر الحق صاحب موجودہ سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں ۔
  اس مبارک اجلاس میں ریاست بہارکے تقریبا تمام اکابرین علماء کرام نے شرکت فرمائی ، بالخصوص فقیہ عصر حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری ؒ سابق سرپرست جامعہ ہذا وسابق قاضی شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ ، حضرت اقدس قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی سابق صدر جامعہ ہذا،حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب امام عیدین کلکتہ ، حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،  حضرت قاری شبیر صاحب مہتمم مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ ، قاری ابوالحیات صاحب ندائے اسلام کلکتہ ، حضرت مولا نا وصی احمد صدیقی سابق مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ کے علاوہ علاقہ کے ممتاز علماء کرام اور دانشوارانِ قوم و ملت کی موجودگی میں ہی  7 / اپریل2006 کو  دو روم کی بنیاد رکھی گئی جس کی تکمیل کے بعد تعلیم شروع ہوئی؛ لیکن کسی سبب سے کچھ وقت کیلئے تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا، اور پھرماہ رمضان 2015 ء  میں ایک مرتبہ فقیہ عصر حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری ؒ سابق سرپرست جامعہ ہذا نے جامعہ کے بانی الحاج حسیب الرحمن صاحب سے کلکتہ میں کہا حسیب صاحب! آپ مدرسہ بنائیں گے یا نہیں ؟ بس  کیا تھا، از دل ریزد بر دل خیزد، ایک ولی کامل کی بات حضرت حاجی صاحب کے دل پرمکمل اثر کر گئی ، بالآخر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ 10 اپریل 2015 ء  میں موجود ہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی، اور اللہ کے فضل و کرم سے یہ عمارت مکمل ہوئی ، پھربتاریخ 24 شوال المکرم 1440ھ مطابق 28  جون 2019  ء میں  فقیہ عصرحضرت مظفر پوری ؒ ، کی زیر صدارت یک روزہ تعلیمی بیداری کانفرنس منعقد ہوا جس میں حضرت اقدس مولانا حبیب اللہ صاحب قاسمی سابق قاضی شریعت مدہوبنی ؒ ، حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ، حضرت مولانا شبلی صاحب قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ پھلوار شریف ،پٹنہ ،قطب وقت حضرت مولانا اظہار الحق صاحب دامت برکاتہم ناظم اعلیٰ مدرسہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامرہی ،کے علاوہ کابرین امت ، بہی خواہان قوم و ملت اور صوبہ بہار و بنگال کے علماء کرام کی پر سوز دعاؤں سے تعلیمی سفر کا آغاز ہوا۔
الحمد للہ اس قلیل مدت میں جامعہ نے روحانی و مادی دونوں ترقیات حاصل کیا ،جامعہ ہذا  میں دینیات ، حفظ ،دور، فارسی، ازعربی اول تا عربی پنجم کی تعلیم ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی نصاب کے مطابق مکمل انتظام ہے ،جامعہ میں جہاں دینی تعلیم سے طلبہ کو آراستہ کیا جاتا ہے وہیں ہندی ، انگلش ، حساب اور سائنس کی تعلیم بھی باضابطہ بہار سرکار کے اسکول کے مطابق دی جاتی ہے ، نیز مستقبل قریب میں ہائی اسکول تک کی تعلیم دینے کا بھی پروگرام ہے ۔


 


جامعہ ہی کے تحت جامعہ تہذیب النساء بھی چل رہا ہےجس میں مسلم بچیوں کے لئے علیٰحدہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی مکمل انتظام ہے، الحمد للہ فی الوقت عربی دوم تک کی تعلیم دی جارہی ہے  انشاء اللہ آئندہ سال سے عالمیت تک کی تعلیم کے ساتھ میٹرک کی تعلیم کا مکمل انتظام رہے گا۔جامعہ تہذیب النساء فی الوقت موجو دہ عمارت ہی میں جانب شمال کے کمروں میں چل رہا ہے ،مستقبل قریب ہی میں زمین کی حصولیابی کرکے مستقل علیحدہ عمارت بنانے کا عزم مصمم ہے ،اللہ تعالیٰ اس مقصد کی تکمیل جلد از جلد کرائے،آمین ۔



فوٹو گلیری







Saturday, August 3, 2024

فتنۂ شکیلیت کا تعاقب و تجزیہ



فتنۂ شکیلیت کا تعاقب و تجزیہ
شکیل بن حنیف، دربھنگہ، بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل دہلی میں تھا،مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی؛ لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلا، دہلی کے زمانہٴ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے؛ لیکن جیسے ہی لوگوں کو اس کی حرکتوں کی اطلاع ہوتی، وہ اس کے خلاف ایکشن لیتے اور اسے اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا، بالآخر اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آبادکے’’رحمت نگر‘‘ میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ”حواری“ رہتے ہیں۔
 ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے، دہلی، بہار، مہاراشٹر وآندھرا پردیش وغیرہ میں اس کے فتنہ میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں،شدہ شدہ یہ فتنہ مدہوبنی میں کئی گھروں میں داخل ہوچکی ہے۔
شکیل بن حنیف دو فتنوں کا جامع
پہلا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو امام مہدی کہتا ہے۔ دوسرا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام بھی کہتا ہے۔
فتنہ اول :۔  علامات مہدی کی روشنی میں شکیل کا جائزہ:
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ شکیل غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔
حضرت مہدی کی متعلق  رسول اکرم ﷺ  کی حدیثوں میں متعدد علامتیں موجود ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کر تے ہوئے ان کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیں گے:
۱- رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، (ابوداود، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل، شکیل بن حنیف ہے، محمد بن عبد اللہ نہیں۔
۲- رسول اللہ ﷺ  نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہدی آپ کی ہی نسل سے ہوں گے،اور ان کا سلسلہٴ نسب حضرت فاطمہ تک پہنچے گا، (ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)۔ جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہی ہے۔
۳- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی کے ہوں گے یعنی گورے رنگ کے ہوں گے،(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایسا نہیں ہے۔
۴- رسول اللہ ﷺ  نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
۵- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمراں بھی ہوں گے، (ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)، اور شکیل حکمرانی کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
۶- احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے (ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)، جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
فتنہ دوم :۔ شکیل اور حضرت عیسیٰ  ؑ
حضرت عیسیٰ  ؑکی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کی بابت بھی قرآن اور حدیث میں کچھ ایسی واضح باتیں بتادی گئی ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر شکیل وقادیانی جیسے ہر جھوٹے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ذیل میں ایسی ہی چند علامتیں درج کی جاتی ہیں:
۱- اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑکی آمد کے سلسلہ میں آں حضرت  ﷺ  نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس سے یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ وہی عیسی بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور جن کی والدہ حضرت مریم تھیں اور جو بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے، صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں ایسی کئی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن میں قیامت کے قریب آپ کی آمد کا تذکرہ ہے اور آپ کا نام عیسیٰ بن مریم ہی لیا گیا ہے، ان میں سے چند روایتیں ابھی آپ پڑھیں گے۔ اور مہدی وعیسی ہونے کا یہ دعوے دار شکیل بن حنیف ہے، ہندوستان کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ عیسیٰ بن مریم نہیں ہے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے اور جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جن کی والدہ کا نام مریم تھا۔
۲- حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے سلسلہ میں متعدد احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اتریں گے (مثلا ملاحظہ ہو: بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، )؛جب کہ یہ شکیل بن حنیف عثمان پور نامی ایک گاوٴں میں اپنے والد حنیف کے یہاں پیدا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اترا ہے۔
۳- صحیح بخاری وصحیح مسلم کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ  کا ارشاد ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمراں بن کرضرور نازل ہونگے، صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہوجائے گی)، خنزیر (کی نسل) کو قتل کردیں گے،  اور مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (بخاری ،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، مسلم ،کتاب الایمان، باب نزول عیسی بن مریم)
اب ذرا اس حدیث کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیجیے، وہ نہ اب تک حکمراں بنا ہے اور نہ حکمرانی کا کوئی ارادہ رکھتا ہے، وہ تو اورنگ آباد، مہاراشٹر کے پاس کی ایک بستی میں چھپا بیٹھا ہے، اور وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور اس نے نہ کبھی کوئی صلیب توڑی ہے اور نہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، نہ خنزیروں کوقتل کیا ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں مال ودولت کی فراوانی ہوئی ہے اور نہ غربت کا خاتمہ ہوا ہے کہ صدقات لینے والا کوئی نہ ملے۔
۴- قرآن مجید نے سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہلِ کتاب (یہودی وعیسائی) مسلمان ہوجائیں گے: ”وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ“ اور شکیل کے ہاتھ پر اب تک ایک بھی عیسائی اسلام نہیں لایا۔
ان کے علاوہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ  ؑ کی بابت اور بھی علامتیں یا پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ لیکن قرآن وصحیح احادیث میں مذکور یہی چار علامتیں شکیل کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اس مختصر سے مضمون میں مزید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اس فتنہ کا مقابلہ کیسے ہو؟
یہ فتنہ چونکہ بہت رازداری کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے؛ اس لیے عام طور پر جب کسی علاقہ کے خادمانِ دین کو اپنے علاقے کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس فتنہ کے داعی سرگرم ہیں،تو اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے اور کئی نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے ہیں؛ اس لیے کسی بھی علاقہ میں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں فتنہ کی آمد کی خبر ملے گی تو پھر فکر کریں گے؛ اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں یہ سرگرم ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو، صورتِ حال کی خطرناکی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن علاقوں کے سلسلے میں یہ اطمینان تھا کہ یہاں یہ فتنہ موجود نہیں ہے، وہاں کے ائمہٴ مساجد نے بھی جب اپنی مسجدوں میں اس مسئلہ پر گفتگو کی تو کچھ نوجوانوں نے ان میں سے کچھ ائمہ کو بتایا کہ اس طرح کے لوگوں نے ہم سے بھی رابطہ کیا ہے؛ اس لیے ضرورت  ہے کہ کسی بھی علاقہ کے سلسلہ میں اطمینان نہ کیا جائے، اور پہلے سے ہی عوام کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے؛ تاکہ اگر یہ فتنہ آپ کے علاقہ میں نہ پہنچا ہو تو اس کی آمد کو روکا جاسکے، اور اگر خدانخواستہ پہنچ گیا ہو تو اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
اس فتنہ کے مقابلہ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر علاقہ کی تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر اس سلسلہ میں گفتگو کرکے لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، اسی طرح ہم ان لوگوں کو فتنہ سے آگاہ کرسکتے ہیں جن کو اس فتنہ کے داعیان اپنا مخاطب بناتے ہیں، 
فتویٰ: شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کافر ومرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اگر ان میں سے کسی کا اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس کی نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ اُسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
فتویٰ: شکیل بن حنیف اپنے عقائد کی وجہ سے کافر مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جو لوگ اس کو سچا مان کر اسے امام مہدی اور مسیح موعود عیسی علیہ السلام مانتے ہیں یا اس عقیدہ پر اُس کے ہاتھ پر بیعت ہوتے ہیں، وہ بھی بلا شبہہ کافرو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ، ایسے لوگوں سے تعلقات ترک کرنا ، اُن سے معاملات اور معاشرت میں دوری اور کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے ، ایسے لوگ اگر سلام کریں، تو ان کے جواب میں ہداک اللہ کہدینا چاہیے ۔

                نوٹ: یہ مضمون نیٹ سے لیاگیا ہے خاص کر کے دارالعلوم دیوبند کے ویب سائٹ سے

 
اس کو بھی پڑھیں

Thursday, August 1, 2024

شکیل بن حنیف کے متعلق دارالعلوم کا فتویٰ






شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی دائرہ اسلام سے خارج ہیں، انہیں مساجد سے دور رکھا جائے: مفتی ابوالقاسم نعمانی ابو القاسم نعمانی اور دیگر ےمام ارباب فتاویٰ نے  نے شکیل بن حنیف  اور اس کے پیروکار کو اسلام سے خارج قرار دیا پوری تفصیل کیلئےدارالعلوم سے لکھی گئی  کتاب "شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کا شرعی حکم " نیچے کے لنک پر کلک کرکےپڑھیں ۔ 



اسی کےساتھ ہی ایک  کتاب " فتنہ شکیل بن حنیف  تعارف وع تجزیہ" کو بھی پڑھیں۔



فتنہ شکیل بن حنیف تعارف تجزیہ